مجھے اس بارے میں یقین کی حد تک گمان رہا ہے کہ اتحادیوں کی حکومت کا موجودہ اسمبلی کی پانچ سال کی آئینی میعاد پوری ہونے کے بعد اگلے عام انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانے کا ارادہ ہے تو اسے اپنے آخری قومی بجٹ کو بہرحال اپنے انتخابی منشور میں تبدیل کرنا اور عوام دوست بجٹ کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو سمجھ لیجئے کہ پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلی کی طرح قومی اسمبلی کے انتخاب کا آئینی تقاضا پورا کرنے کی بھی حکومت کی کوئی نیت نہیں۔ موجودہ اسمبلی کی آئینی میعاد ٹھیک دو ماہ بعد 12 اگست کو پوری ہو رہی ہے اور آئینی تقاضے کے مطابق آئینی میعاد پوری ہونے کے بعد تحلیل ہونیوالی اسمبلی کے انتخابات اسکی تحلیل کے ٹھیک دو ماہ بعد منعقد ہونا ہوتے ہیں۔ چنانچہ 12 اگست کو تحلیل ہونیوالی قومی اسمبلی کے انتخابات بہرصورت 12 اکتوبر سے پہلے منعقد ہونا ہیں جس کیلئے حکومت کی جانب سے الیکشن کمشن کو پہلے ہی 8 اکتوبر کو عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ بھجوائی جا چکی ہے۔
اگر ان انتخابات کے بارے میں اہل اقتدار کے دل میں پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں جیسا کوئی معاملہ اٹکھیلیاں کر رہا ہو تو ”خراب موسم“ ”دشوار راستے“ جیسے حیلے بہانے نکالنے کےلئے تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں جیسے سابقہ ”تجربے“ سے استفادہ کرنے میں بھلا کیا دقت ہو سکتی ہے۔ اگر چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاءبندیال نے آئینی میعاد پوری ہونے سے قبل پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے تحلیل کرائی گئی دونوں صوبائی اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر انتخابات کا آئینی تقاضا پورا کرایا ہوتا تو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد اسکے آئینی میعاد کے اندر انتخابات کیلئے مین میخ نکالنے کی حکمرانوں کے پاس کوئی گنجائش ہی نہ رہتی۔ مگر محترم چیف جسٹس نے تو اس معاملہ میں خود سیاست کی۔ ازخود نوٹس صرف تحلیل شدہ پنجاب اسمبلی کے معاملہ میں لیا حالانکہ خیبر پی کے اسمبلی کا معاملہ پنجاب اسمبلی جیسا پیچیدہ بھی نہیں تھا کیونکہ خیبر پی کے اسمبلی خود گورنر کے پی کے نے وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر توڑی تھی جس کے بعد اس تحلیل شدہ اسمبلی کے آئین کی دفعہ 124 ذیلی دفعہ 3 کے تقاضوں کے مطابق 90 دن کے اندر انتخابات ہونے تھے۔ حیرت ہے کہ فاضل چیف جسٹس کے بقول تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے آئینی مدت کے اندر انتخابات کرانے کا تقاضا پورا کرانے کیلئے آئین نے انہیں دستک دی مگر یہ آئینی تقاضا پورا کرانے کے معاملہ میں انہوں نے خیبر پی کے اسمبلی کی جانب اپنی آنکھ مِیچ لی اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا آئینی تقاضا پورا کرانے کیلئے وہ حکومت ہی نہیں‘ الیکشن کمیشن اور دوسرے ریاستی اداروں کے بھی لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے۔ یہ کس کو سہولت دینے کی سیاست تھی، اسکی پرتیں بھی فاضل چیف جسٹس اپنے ریمارکس کے ذریعے خود ہی کھولتے رہے۔ چنانچہ اس سیاست کی زد میں آنیوالوں کو بھی جوابی سیاست کا خوب موقع ملا اور پھر اس کھیل میں وہ دھماچوکڑی مچی کہ تاریخ کے ناقابل فراموش ریکارڈ کا حصہ بن کر ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئی۔ اور تحلیل شدہ اسمبلیوں کے آئینی میعاد کے اندر انتخابات کرانے کا معاملہ بھی غتربود ہو گیا۔ اگر یہ آئینی تقاضا پورا نہ کرنے پر کسی کو مستوجب سزا ہونا ہے تو اڑھائی ماہ بعد اپنے منصب سے ریٹائر ہونیوالے فاضل چیف جسٹس بھی اسکی زد میں آنے سے کیسے خود کو بچا پائیں گے جنہوں نے ایک فریق کی سیاست کے عین مطابق سارا زور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے لگایا اور اسکے برعکس خیبر پی کے اسمبلی کو بحال کرانے کے راستے سجھاتے رہے۔ جناب! تاریخ میں رقم ہوئے یہ حوادث و شواہد تاریخ کی آنکھ سے اوجھل تو نہیں کئے جا سکتے اور یہی وہ تاریخ کا سبق ہے جس کی آڑ لے کر اتحادی حکمران قومی اسمبلی کے آئینی مدت کے اندر انتخابات کے راستے میں بھی حیلے بہانوں کے پہاڑ کھڑے کرسکتے ہیں۔ اسی کو بھانپ کر میرا تجسس میری نگاہیں کسی ”شرارتی“ منصوبہ بندی کی جانب گھماتا رہا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کو بھی آگے لے جانے کی کوئی سہولت محسوس کرکے اتحادی حکمران اپنے آخری بجٹ میں عوام کے ساتھ بھی ہاتھ کر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف انہیں پہلے ہی پلہ نہیں پکڑا رہا اور اپنے فائدے سمیٹنے میں ہمہ وقت مصروف مافیاز نے بھی حکومت کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے اس لئے وہ بجٹ میں عوام کیلئے مزید چیخیں نکلوانے کے اہتمام سے بھی گریز نہیں کرے گی اور اہلِ اقتدار مزید سال دو سال حکمرانی کے مزے لیتے رہیں گے۔
اگرچہ بجٹ میں وفاقی محصولات کی وصولی کا ہدف 9 ہزار دو سو ارب روپے کا مقرر کرکے‘ جس میں دو سو ارب روپے کے نئے ٹیکس بھی شامل ہیں‘ عوام کو براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی مگر یہ بوجھ ناروا بوجھ کے طور پر محسوس ہونے سے پہلے پہلے تنخواہ دار طبقات اور پنشنرز حضرات جن کی مجموعی تعداد یقیناً کروڑوں میں ہے اور وہ طبقہ ہائے عوام میں ہی شمار ہوتے ہیں، اپنی تنخواہوں میں 35 فیصد تک اور پنشن میں ساڑھے 17 فیصد تک اضافے کی خوشی میں جھومتے نظر آرہے ہونگے اور یہ خوشی کافور ہوتے ہوتے بھی کم از کم تین ماہ کا عرصہ تو لگ جائیگا۔ اسکے بعد عوام کا غم و غصہ نمودار ہونا شروع ہوگا تو اس وقت تک نئے حکمران بھی نمودار ہو چکے ہونگے سو عوام جانیں اور نئے حکمران جانیں:
اپنی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے
تو جناب! ہم خوش ہو لئے کہ اپنے پیش کردہ ”عوام دوست“ بجٹ کو حکمران اتحادی جماعتوں نے آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جانے کی سیڑھی بنالیا ہے اس لئے قوم خاطر جمع رکھے کہ قومی اسمبلی کی آئینی میعاد پوری ہونے کے دو ماہ بعد اسے عام انتخابات کے ذریعے نئے وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کی شکلیں دیکھنے کو ضرور مل جائیں گی۔ اور اس منزل تک پہنچنے کے سفر کے ساڑھے تین ماہ کے دوران عوام کو پٹرولیم نرخوں میں مسلسل کمی کی خوشخبریاں بھی ملتی رہیں گی۔ مگر اسکے بعد کیا؟ آپ فی الحال مہنگائی میں ریلیف کے مزے لوٹیں اور وقتی سکون کیلئے یہ شعر گنگاتے رہیں کہ:
آئے کچھ ابر‘ کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے‘ جو عذاب آئے