کالم:لفظوں کا پیرہن
تحریر::غلام شبیر عاصم
پرانے زمانے کے طرزِ زندگی اور تہذیب میں موجودہ جِدت اور نِت نئی ٹیکنالوجی کے اثرات و نتائج نے بہت بڑا تغیر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔فطرت تو ایک اٹل حقیقت اور زندگی کا اٹوٹ انگ ہے،فطرت تو نہیں بدلتی البتہ لگتا ہے کہ زندگی سے فطرت نکلتی جارہی ہے،اور معروضیت اپنی بنیادیں پکی کرتے ہوئے فطرت کو ملفوف سا کرتی چلی جارہی ہے۔گویا فطرت پر جدت کی ک±ہر سی چڑھ گئی ہے۔ایک دور تھا جب دیہات میں یہ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ نان بھی کسی شے کا نام ہے۔اب تو کیا کچھ متعارف ہوگیا ہے،پِیزا،شوارمہ،برگرنہ جانے کیا کچھ آگیا ہے۔بلب کو اس وقت"آنڈا" چینی کو"کھنڈ"کہا جاتا تھا۔میک اپ کی ٹوٹل کِٹ س±رخی،تِبت کریم،س±رمے دانی یا پوڈر کا ڈبہ ہوتا تھا۔زیادہ تر صرف کریم اور سرمہ پر ہی اکتفا کیا جاتا تھا۔سرخی اور پوڈر کا اضافہ عید یا کسی شادی کے موقع پر کیا جاتا تھا۔اتنا پتہ نہیں ہوتا تھا کہ"باپ"یا والد بھی"ابا"ہی کو کہتے ہیں۔بجلی کے لفظ کا پتہ تو،شعور پکڑنے کے کئی سالوں بعد آیا کہ"بتی"ہی کو بجلی کہتے ہیں۔مگر اب تو جِدت دیہاتوں میں بھی آگئی ہے۔شہروں اور دیہاتوں کا فرق تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ایک وہ بھی زمانہ تھا جب ہر گاوں کے ساتھ جوہڑ( چھپڑ) لازمی ہوتا تھا۔میرے گاوں رعیہ خاص کے مشرقی حصہ کے ساتھ بلکہ تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ پورے گاوں کے گرد جوہڑ تھا۔دوسرے لفظوں میں تمام گھروں کے گندے پانی کا"جوہر"تھا۔اس کے کنارے پربت نما مٹی اور کوڑا کرکٹ کے بلند ڈھیر پر زیادہ تر آرائیں برادری کے مکان تھے۔جیسا کہ"دِینو آرائیں،مجیدا آرائیں، جلال عرف جالھی آرائیں،اسلم عرف شاما آرائیں،بشیر بٹ اور ماسی بیدی(خالہ زبیدہ)کے گھر تھے۔دِینو آرائیں کی اس وقت تقریبا?? 75,80 سالہ ماں"مائی بولی" تھی۔میری عمر اس وقت کوئی آٹھ دس سال ہوگی۔میری ماں جی ایندھن کے طور پر ان کے گھر سے "پاتِھیاں"یعنی اوپلے لینے گئیں تو میں مائی بولی کو دیکھ کر ڈر گیا چیختا چلاتا ہوا آنکھیں بند کرکےماں جی کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔مائی بولی کی شکل میرے حافظہ میں گویا نقش ہوگئی،رات کو نظروں کے سامنے شکل آتی تو میری چیخیں نکل جاتیں،ماں جی مجھے چوم کر سینے کے ساتھ بھینچ لیتیں۔ایک عرصہ تک مائی بولی میرے تصور میں بھی آجاتی تو میں خوف میں گِھر سا جاتا دل تھا کہ بیٹھنے لگتا تھا۔ مائی بولی یقینا?? کانوں سے بہری تھی۔مگر نظر اس عمر بھی اس کی ٹھیک تھی۔مائی بولی کا خوف آج بھی شعور کے کہیں کونے ک±ھدرے میں نہاں ہے اور کبھی کبھی آسیب کی طرح مجھ پر چھا جاتا ہے حملہ سا کردیتا ہے۔میں ڈر سا جاتا ہوں۔۔لیکن میں کبھی کبھی محسوس کرتا ہوں کہ آہستہ آہستہ مائی بولی کے اس خوف کی جگہ آج کے موجودہ حالات نے لے لی ہے۔لگتا ہے مائی بولی روپ بدل کر آج بھی مجھے ڈرا رہی ہے۔آج کی وہ مائی بولی میرے ملک کی سیاست ہے۔جو کانوں سے تو بہری ہے مگر نظر بڑی تیز ہے۔آج بھی ایسے حالات پیدا کردئے گئے ہیں کہ میرے سمیت تمام لوگ ڈائن نما اس مائی بولی اور مائی بولی نما اس سیاست سے ڈرتے،چیختے خوف بھری کسی آسیبی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔بڑے بڑے مدبر لوگ،بچوں کی طرح سوتے میں ڈرجاتے ہیں۔کسمپرسی کے حالات آسیب بن کر ہمیں ڈرا رہے ہیں۔مہنگائی کا جِن،مایوسیوں محرومیوں کے بڈاوے ہمیں ہرپل ڈراتے رہتے ہیں۔پوری قوم،پورا ملک گزشتہ چند سالوں سے آسیب کی ذد میں ہے۔پتہ نہیں ہجوم نما یہ قوم اس عفریت اور آسیب کے اثرات سے کب آزاد ہوگی۔لگتا ہے جب تک ہمارے سیاسی ماندری،چلہ باز اور ڈرامے باز بابے ٹھیک نہیں ہون گے یہ آسیب اور بڈاوے ہم عوام کو ڈراتے رہیں گے۔