پروفیسرزاہد نوید کی جوئے خوں 

Jun 13, 2023

ڈاکٹر مقصود جعفری

 حکومت حکمت ....ڈاکٹر مقصود جعفری 
Drmaqsodjafri@gmail.com

پروفیسر زاہد نوید گورڈن کالج راولپنڈی میں ادبیات کے پروفیسر تھے۔ ہم دونوں ہم جلیس و ہمکار بھی تھے اور میخانہ ادب کے میخوار بھی تھے۔ وہ آج بھی چہرے متبسّم اور چشمِ پرنم کا پیکر ہیں۔نامور شاعر اور نقّادِ ادبیات ہیں۔ چند برس قبل ا±ن کی غزلیات کی کتاب بعنوان” قاشِ نیم رس“شائع ہوئی تھی جس کی ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی۔ مرزا غالب ” تیرِ نیم کش“ سے زخمی ہوئے اور زاہد نوید کے دل کو ” قاشِ نیم رس“ نے نہ صرف پاش پاش کر دیا بلکہ قاش قاش بھی کر دیا۔ یہی دلِ بریاں اور چشمِ گریاں ا±ن کا حمدیہ اور نعتیہ کلام بن کر منصّہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ یہ شعری مجموعہ حمد و نعت، منقبت، سلام، قصائد ، نوحہ، اور مرثیہ کی ہفت اقلیم ہے۔ مرزا غالب نے کہاتھا
ج±و? خ±وں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق 
مَیں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں 
 زاہد نوید کی شب ہائے تیرہ و تاریک میں جو دو شمعیں فروزاں ہوئی ہیں وہ عشقِ ذاتِ الہی اور محبّتِ محمد و آلِ محمد ہیں۔ یہ شعری مجموعہ عقیدتی، ایمانی، ایقانی، عرفانی، اور روحانی گ±لدستہ ہے۔ 
 مدحتِ محمد و اہلِ بیتِ رسول ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ حدیثِ رسول ہے” میرے اہلِ بیت کی مثال کشتی نوحؑ جیسی ہے جو اِس میں سوار ہوا ا±س نے نجات پائی اور جو اِس سے د±ور رہا وہ غرق ہوا”۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
رونے والا ہوں شہیدِ کربلا کے غم میں مَیں 
کیا د±رِّ مقصد نہ دیں گے ساقءکوثر مجھے 
 مذہبی اور عقیدتی شاعری ہر زبان میں ہوئی ہے۔ انگریزی ادب میں جان ملٹن ( John Milton ) کی شہرة آفاق کتاب “ Paradise Regained” مذہبی شاعری کا شہکار ہے۔ اِسی طرح John Donne کی شاعری بعنوان “ Religious Songs” انگریزی ادب کے ماتھے کا ج±ھومر ہے۔مسلمانوں میں مذہبی شاعری کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اگر عربی، فارسی، اردو اور دیگر زبانوں میں لکھنے والے مذہبی شعرائ کا ذکر کیا جا? تو اِس سفینے کے لئے بحرِ بیکراں درکار ہے۔ چند کا ذکر کرنا عبادت سمجھتا ہوں۔حضرتِ اب±و طالب، حسّان بن ثابت، مولانا جامی، مولانا رومی، ملّامحتشم کاشی، میر انیس، مرزا دبیر، جوش ملیح آبادی، بیدم وارثی، حافظ مظہر الدین، مِحسن کاکوروی، حافظ لدھیانوی، امام رضا بریلوی، جگن ناتھ آزاد، مہندر سنگھ بیدی اور حفیظ تائب کے اسماءگرامی مشتے از خروارے کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ 
 زاہد نوید کا مذہبی ادبیات کا گہرا مطالعہ ہے۔ انہوں نے اِس چشم صافی سے شرابِ طہورہ کے جام ل±نڈھا ہیں۔ امام حسین علیہ السلام سے ا±ن کی بے پناہ عقیدت مسلکی بنیادوں پر روایتی نہیں بلکہ وہ غمِ حسین کو انسانی اور آفاقی نعرہ ہانقلاب گردانتے ہیں جو ملوکیّت ، آمریّت اور ف±سطائیت کی موت ہے۔ جوش ملیح آبادی نے اپنے طویل مرثیہ بعنوان” حسین اور انقلاب” میں بجا کہا تھا
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو 
ہر قوم پ±کارے گی ہمارے ہیں حسین ؓ
 جوش نے امامِ عالی مقامؓ کو ” امامِ انقلاب “ قرار دیا جبکہ فیض احمد فیض جیسا اشتراکی شاعر بھی اپنے شعری مجموعہ “ شامِ شہرِ یاراں” میں “ مرثیہ امام”کے عنوان سے ایک طویل مرثیہ لکھتے ہیں اور مقصدِ شہادتِ امام حسین علیہ السلام کی ترجمانی یوں کرتے ہیں 
“ طالب ہیں اگر حق کے تو ہم حق کے طلب گار 
باطل کے مقابل میں صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مرّوت کے طرف دار
ظالم کے مخالف ہیں تو بیکس کے مددگار 
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے،آپ لعیں ہے
جو جبر کا م±نکر نہیں،وہ م±نکرِ دیں ہے 
 زاہد نوید کے اِس عقیدتی شعری مجموعے کا ہر شعر ہیرے کی کنی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے ?
“حمدیہ شعر”
م±شکل میں آسرا ہے ، تو تیرے سوا ہے کون
سنتا ہے، دیکھتا ہے ، تو تیرے سوا ہے کون 
 “نعتیہ شعر”
 مَیں اپنے آپ کو چھوڑ آیا ا±ن کی چوکھٹ پر 
تو میری عمر کا سرمایہ بھی ٹھکانے لگا
“منقبتیہ شعر”
علی ولی کی ولایت ہے قائم و دائم 
مناو¿ جشن کہ عیدِ غدیر آئی ہے 
شعر از مرثیہ 
 اشکوں کے جام پھر سے چھلکنے لگے نوید 
رہ رہ کے یاد آنے لگی کربلا مجھے 
 یہی وہ کارزارِ کربلا ہے جو معرکہ حق و باطل ہے جس کی صدائے بازگشت آج پھر “ ج±وئی خ±وں” میں سنائی دے رہی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی یہی کہا تھا
رمزِ قراں از حسین آموختیم 
زاتشِ او شعلہ ھا اندوختیم

مزیدخبریں