اوورسیز پاکستانی کیا سوتیلے ہیں؟

Jun 13, 2023

مطلوب وڑائچ

گلوبل ویلج    
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com

مخالفین کے لیے فسطائیت اور جبر یہ دیکھا جاتا رہا ہے۔سٹالن اور ہٹلر نے جو کچھ کیا تھا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ پاکستان میں بھی جبر اور ظلم کی روایات موجود ہیں۔ مارشل لا?ں میں خصوصی طور پر مخالفین کے ساتھ جو کچھ کیا جاتا تھا وہ کسی مہذب معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا لیکن اب جو کچھ کیا جا رہا ایسا میں نے اپنی زندگی کبھی نہ پڑھا نہ کبھی سنا۔ بہوبیٹیوں کو بے پردہ کیا جانا یہ کسی بھی معاشرے میں روا نہیں ہے۔ لیکن یہاں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس نے اخلاقیات اور انسانیت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ مائیں، بہنیں، بہو،بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ عمر ڈار، عثمان ڈار کی ہمشیرہ کو پکڑ کر ان کی والدہ کے سامنے جو کچھ کہا گیا وہ یہاں دہرانا بھی مناسب نہیں ہے۔ اسلم اقبال کے ساتھ کیا کچھ ہوا ان کی بیٹی کا جہیز ان کے بقول جس طرح سے لوٹا گیا ان کے باقی رشتے داروں کے گھروں میں جس طرح ریڈ کیے گئے ایسا پہلے کبھی ہمارے ملک میں نہیں ہوا اوراس پر پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر بھی شدید احتجاج کیا گیا۔ اوورسیز پاکستانی اپنے تحفظات کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے ہیں تو ان کو بھی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔یہاں تک کہا گیا کہ جیسے ہی یہ پاکستان آئیں گے ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جائے ان سے پوچھا جائے گا ،ان سے حساب لیا جائے گا۔ اوورسیز پاکستانی پاکستان کے لیے کتنے اہم ہیں ان کو اس طرح سے خوفزدہ کرنا کیا مناسب ہے۔ کیا یہ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو ناراض کرنا افورڈ کر سکتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ حکومت ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ 
بجٹ آپ نے دیکھا۔ساڑھے چودہ ہزار ارب روپے کا بجٹ ہے، اس بجٹ کا 32فیصد حصہ اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔68 فیصدکیلئے قرض اور پاکستان کے وسائل بروئے کار آتے ہیں تو اس کمیونٹی کو جو آپ کے بجٹ کا 32فیصد حصہ اپنی ترسیلات سے ادا کرتی ہے اس کو آپ کس طرح اپنے مقابل لا کر ناراض کر سکتے ہیں۔لیکن دھمکیوں کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو اتنا خوفزدہ کیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان اپنی ترسیلات بھجوانے کے سلسلے میں پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے مزید بھی اقداما ت کریں گے۔پہلے اوورسیز پاکستانی اپنی ترسیلات بینکنگ کے ذریعے بھیجا کرتے تھے لیکن جب یہ حکومت آئی معیشت ڈوبی اوورسیز پاکستانیوں کو گذشتہ حکومت کی طرف سے ووٹنگ کا حق دیا گیا تھا۔ انہوں نے آ کر یہ حق چھین لیااور اب اس طرح کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس کے بعد سے پھر ترسیلات میں کمی آئی۔ 32ارب ڈالر سالانہ بھیجے جاتے تھے لیکن گذشتہ سال کے مقابلے میں اس بار اس میں بہت زیادہ کمی آ چکی ہے۔ پاکستان کو بھیجی جانے والی ترسیلات کے ذرائع بھی بینکنگ سے ہنڈی کی طرف شفٹ ہو چکے ہیں۔جب آپ ووٹنگ کا حق دے کر وہ چھین لیں گے اور اس کے ساتھ پھر دھمکیاں بھی دیں گے، صرف سوشل میڈیا پر اظہار رائے کرنے پرتو میں نہیں سمجھتا کہ اوورسیز پاکستانی کسی قسم کی بھی پاکستان کے خلاف کوئی مہم چلانے کا سوچ سکتے ہیں۔ وہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس حوالے سے اپنی رائے کااظہار کرتے ہیں۔ وہ بھی اس حکومت کے لیے روا نہیں ہے، قابل برداشت نہیں ہے۔ ان اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ جس طرح سے سوتیلوں والا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس میں مزید اضافہ بھی اس حکومت کی طرف سے کیا جا رہا ہے، کیا یہ حکومت چاہتی ہے کہ اوورسیز پاکستانی مکمل طور پر اپنی ترسیلات بند کر دیں۔ پہلے بھی ان کی طرف سے اتنا تو کیا جا چکا ہے کہ صرف اتنے ہی پیسے وہ پاکستان اب بھیجواتے ہیں جو ان کے اہل خانہ کی ضروریات کے مطابق ہوں۔ پہلے جائیدادیں بنانے کے لیے بھی یہ لوگ اپنے پیسے بھیجوا دیا کرتے ہیں۔ لیکن اس حکومت کا اعتبار نہیں رہا اور پھر دھمکیاں بھی ہیں۔ اس کے بعد سے پھر اوورسیز پاکستانی محتاط ہو گئے ہیں۔
آج جس طرح سے خسارے کا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے اس کی شاید اتنی ضرورت نہ ہوتی اگر اوورسیز پاکستانیوں کی اس حکومت کی طرف سے اتنی زیادہ توہین اور تذلیل نہ کی جاتی۔اوورسیز پاکستانی کتنے وسائل رکھتے ہیں اس کا اندازہ امریکہ میں موجود 16ہزار پاکستانی ڈاکٹروں کی ورتھ سے لگایا جا سکتا ہے، جن کے اثاثے امریکہ میں 200ارب ڈالر ہیں اور صرف چند ڈاکٹروں کی مالیت پچیس ارب ڈالر بتائی گئی ہے۔ یہ امریکہ میں رہنے والے ڈاکٹر پاکستانی ہیں اس کے علاوہ آپ اندازہ کریں ،کینیڈا میں، برطانیہ میں، جرمنی میں، نیوزی لینڈ میں، آسٹریلیا میں، سعودی عرب میںاور دیگر عرب ممالک میں کتنے پاکستانی ہیں اور ان کی ورتھ امریکہ میں رہنے والے 16ہزار ڈاکٹروں سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ ان کو عزت دیں ،احترام دیں تو وہ آپ کے سارے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
حکومت کو یہ سارا کون فیڈ کرتا ہے، میڈیا کے چند نام نہاد ارسطو، ان کی طرف سے حکومت کو مشورے دیئے جاتے ہیں کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے وہ پاکستانی جو اس حکومت کی حمایت نہیں کرتے ان کو پاکستانی ایئرپورٹس پر پہنچتے ہی گرفتار کر لیا جائے، ان کے یہاں پر خاندانوں کو پریشان کیا جائے۔یہ ان کی ان پاکستانیوں کے بارے میں رائے ہے جو پاکستان کو چلا رہے ہیں۔ اندازہ کریں کہ ایک سال کے دوران پچھلے مئی سے اس مئی تک ایک سال میں پاکستانیوں نے جو کچھ پاکستان بھیجا اس میں چالیس فیصد کی کمی ہو گئی ہے۔ ان کو یہ باور رہنا چاہیے کہ آج آپ اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں، طاقت میں ہیں۔ آپ نے ہمیشہ طاقت میں نہیں رہنا۔اقتدا رمیں ہمیشہ نہیں رہنا اور پھر ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ نے فرانس میں دیکھ لیا ،برطانیہ میں بھی جو کبھی پاکستان میں بڑے طاقتور سمجھے جاتے تھے ان کے ساتھ بھی جو کچھ ہو رہا ہے۔ و ہی کچھ ان لوگوں کے ساتھ ہونا ہے جو آج پاکستان میں طاقت میں ہیں۔ان کا سب کچھ پاکستان سے باہرہے وہاں جائیں گے تو یہی اوورسیز پاکستانی ان کے سامنے آئیں گے اور پھر وہی کچھ ان کے ساتھ ہونا ہے جو کچھ آج پاکستان سے گئے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے جو کل بڑے طاقت میں تھے ،بڑے گھمنڈ میں تھے۔
اوورسیز پاکستانی پاکستان کے حامی ہیں، پاکستان کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں، ان کو دھمکیاں نہ دیں، ان کو خوفزدہ نہ کریں۔ ان کو نظرانداز کرکے یا ناراض کرکے آپ پاکستان کو ترقی یافتہ نہیں بنا سکتے۔

مزیدخبریں