حج: عشق و جنوں اور ورافتگی کا مبارک سفر 

 ضیاءپاشیاں....ڈاکٹر شہباز احمد چشتی 
Dr.shahbazadvocate@gmail.com 

اسلام کا معنی ہی خود سپردگی ھے بندہء مومن اپنے آپ کو حکمِ خدا کے سامنے یوں سر نڈر کر لیتا ھے کہ اس کے ہر عمل سے رضا ئے الہی کی خوشبو آتی ھے۔ حج اسلام کے ارکان میں سے آخری رکن ھے جو دوسرے ارکان کے برعکس مالی، بدنی اور روحانی عبادات کے نور سے ضو فشاں ھے سفرِ حج کے لئے نیت، منصوبہ بندی اور پلاننگ اگرچہ خود ہی کرنی پڑتی ھے لیکن توفیق خدا ہی عطا کرتا ھے حج کے لئے مالی استطاعت دین کی شرط ھے مگر حقیقت میں حج مال سے نہیں نصیب سے ہوتا ھے ورنہ جدہ اور ریاض کی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں جاب کرنے والے ہوں یا امریکہ و یورپ میں ملین ڈالرز کے اثاثے رکھنے والے ہوں حج کی سعادت اور بیت اللہ کی زیارت سے محروم ہی رہتے ہیں سچ تو یہ ھے کہ عشق کی آگ اور دل کا سوز و گداز وہ عطیہ ءخداوندی ھے جو محبوب حقیقی کے لئے بے تاب دلوں اور بے قرار روحوں کے مقدر میں لکھا جاتا ھے۔ حاجی کے ہر عمل سے دیوانگی ٹپکتی اور ہر ادا سے فر زانگی چھلکتی ھے حاجی مقامِ میقات سے جب دو کفن نما چادروں میں سفر کرتے ہوئے لبیّک اللھم لبیّک کا ایمانی نغمہ آلاپتے ہوئے نکلتا ھے تو قدسیان فلک بھی رشک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حج کی فرضیت کے بعد اس کی ادائیگی میں تاخیر و تساہل سے منع کیا گیا ھے سرکار کل جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حج کی فرضیت کے بعد اس کی ادائیگی میں جلدی کرو کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کو کون سا عذر ( موت) پیش آنے والا ھے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو شخص شرعی عذر کے بغیر فریضہ حج ادا نہیں کرتا وہ چاہے یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر مرے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ 
حاجی جب گھر کی سہولیات اور اہل و عیال سے دور بکھرے ہوئے بالوں، لرزتے ہاتھوں اور اشکبار آنکھوں سے اپنے معبودِ بر حق کو پکارتا ھے تو رحمتِ خداوندی کے دریا میں جوش آجاتا ھے بندہ مومن جو جائز دعا مانگتا ھے تو اجابت کے پردے فورًا چاک ہوتے ہیں قبولیت کی برکھا برستی ھے اور قدردان ربّ اپنے بندے کے خالی دامن کو بخشش و عطا سے بھر دیتا ھے فقیروں کو راج اور گداوں کو تاجِ نصیب ہوتا ھے۔ کسی درویش عاشق کے فارسی اشعار کا مطب یہ ھے کہ" مجھے اپنی آنکھوں پر ناز ھے کہ انہوں نے تیرا جمال دیکھ لیا ھے میں اپنے پاوں پر گرا چاہتا ہوں کہ وہ چل کر تیرے کوچے میں پہنچ گے ہیں میں اپنے ہاتھوں کو بوسے دیتا ہوں کہ انہوں نے تیرے دامن کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچاہے”آج کل حج کا سفر بہت آسان ہو گیا ھے لوگ دینا بھر سے مختلف ائیر لائنز کے ذریعے یا انتہائی آرام دہ گاڑیوں میں سوار ہو کر مشاعر مقدسہ کی طرف جاتے ہیں جبکہ ماضی میں عاشقانِ با صفا اور زائرین کعبہ نے ہزاروں میلوں کی خاک چھان کر بھی مناسکِ حج کی سعادت حاصل کی ھے اور کاسہ دل و نگاہ کو عشق الہی کی دولتِ لازوال سے بھر ا ھے سفر حج میں انسان کی سوچ و فکر کو ایمان کے نئے زاویے نصیب ہوتے ہیں عقل سوچتی اور فکرجھنجوڑتی ھے کہ پتھروں سے بنی عمارت کے گرد چکر لگانے کا فائدہ کیا ھے صفا و مروہ پہاڑیوں پر دوڑنے سے کیا ملے گا سیاہ پتھر کو بوسے کیوں دئیے جارہے ہیں علامتی ستون پر کنکر یاں برسانے سے شیطان مر تو نہیں جائے گا اور لاکھوں جانوروں کا خون بہانے سے مقصود کیا ھے اس طرح کے سینکڑوں سوالات زائر کے ذہن کو منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان تمام سوالات کے جوابات عقل کے پاس تو نہیں البتہ عشق و جنوں ضرور دیتا ہیں۔ دانائے راز اقبال نے کہا 
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں 
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
عشق کہتا ھے کہ احرام کفن نما نہیں بلکہ لباسِ محبوبیت ھے جو خلیل اللہ نے بھی پہنا اور حبیب اللہ نے بھی زیب تن فرمایا کعبتہ اللہ کے گرد صدقِ دل سے چکر لگانے والا دنیاوی چکروں سے بچ جاتا ھے حجر اسود کا چومنا محض اس کا جنتی ہونا نہیں بلکہ وہ بوسہ گاہِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ھے اس لئے اس کا چومنا اتباعِ حبیبِ خدا ھے صفا و مروہ کی پہاڑ یوں پر چلنا اس خدا کی مقبول بندی سیدہ حاجرہ ? کی یاد تازہ کرتا ھے جس نے اپنے مسجود و مطلوب سے محبت، اعتماد، توکل اور یقین کی انتہائ پر پہنچ کر بتا دیا کہ بندہ جب بندگی میں کمال دکھاتا ھے تو مالک اپنی قدر دانیوں کا جمال دکھاتا ھے علامتی شیطان کو کنکریاں مارنا در اصل سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کی سنت بھی ھے جبکہ دنیاوی محبتوں کو حکمِ خدا کے تابع کر دینے کا مظہر ھے رمی جمار کرنا یہ پیغام دیتا ھے کہ اللہ کریم کی محبت کے مقابلے میں بیوی اور بچوں کی محبت کھبی بھی مومن کے پاوں کی زنجیر نہیں بنتی اور جانوروں کے گلے پر چھری چلانا حقیقت میں نفسانی خواہشات کی قربانی ھے خلیل اللہ نے اپنے نور نظر اور لخت جگر کے نرم و نازک گلے پر چھری رکھ کر انسانیت کو پیغام دے دیا کہ اولاد اگرچہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوتی ھے مگر ایسی لاکھ محبتیں محبوبِ حقیقی کی جنبِشِ اَبرو پر قربان کی جا سکتی ہیں۔ 
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق 
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدة تصورات
حاجی کا سفر بھی قابل رشک، بلد امین میں آبلہ پائی بھی باعث فخر حتی کہ اس کی زندگی اور موت بھی قابل رشک ھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حاجی اگر سفر حج میں وصال فرما جائے تو قیامت کے دن بھی لبیّک اللھم لبیّک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔ اس سفرِ مقدس کا ایک ایک لمحہ عشق و عرفاں اور سوز و گداز سے روشن ہوتا ہے وہاں ہر طرف نور ہی نور نظر آتا ھے زائرین کی ہر ہر گھڑی ذوق و شوق میں ڈوبی ہو ئی گذرتی ھے اس سفر موج ظفر کی پنہائیوں میں کیا کچھ نہیں ھے محبت ھے ، رِقّت ہے، آنسو ہیں، سسکیاں ہیں نالے اور آہیں ہیں کرب و درد ہے دعا و مناجات ہے نیم شبی، گریہ وزاری اور رتجگے ہیں محبت کی آگ اور عشق کی تپش ہے۔کوچہ جاناں میں حاجی کی زبان پر ایک ہی نغمہ جاری رہتا ھے میرے مالک میں حاضر ہوں، میرے مالک میں حاضر ہوں آ شفتہَ سَر پہ ایک ہی دھن سوار ھے کہ میرا کریم مجھ پر راضی ہو جائے الغرض ارکان حج کی ادائیگی کے دوران حاجی دیوانہ وار عاشقانہ اعمال اور والہانہ افعال کے ذریعے محبوبِ حقیقی کے حسن لازوال کی جھلک بھی دیکھ لیتا ھے اور بخشش و ر ضا کا پروانہ بھی حاصل کرکے لوٹتا ھے۔ بقول اکبر الہ آبادی
عشق نازک مزاج ہے بے حد 
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا 
اللہ کریم مجھ سمیت آپ سب کو سعادتوں، برکتوں اور رحمتوں بھرے اس سفر کا راہی بنائے۔

ای پیپر دی نیشن