وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ 2024۔25 کا اعلان کردیا گیا ، پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کی جانب سے بجٹ، آئی ایم ایف اور دورہ چین میں ہونیوالے معاہدوں اور پنجاب میں ہتک عزت آرڈینینس و دیگر معاملات پر اعتماد میں نہ لئے جانے پر بجٹ اجلاس سے چند لمحے قبل اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان سامنے آیا جس پر ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کی قیادت میں حکومتی وفد نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کرکے انکے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی جس پر پاکستان پیپلز پارٹی نے اجلاس میں شرکت کی مگر اس اہم موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ شدید ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ حکومت میں شامل اتحادیوں کے مابین تعلقات خوش گوار نہیں اور دن بدن تناؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا مطالبہ کررہی ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت مزید مہنگائی مسلط کرنے سے عوام کی ناراضگی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف سامنے آیا ہے کہ بجٹ کے معاملے پر کسی سطح پر اعتماد میں نہیں لیا گیا، ہمیں امید نہیں تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف اس قسم کی صورتحال پیدا کرینگے اور اکثریتی نمبرز کی حامل اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو اعتماد میں ہی نہیں لیا جائیگا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ء پارلیمانی لیڈر قومی اسمبلی زرتاج گل کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس حکومت کا حصہ ہے اور حکومت کے تمام تر اقدامات میں برابر کی شریک ہے تمام کمیٹیوں میں شامل ہے انکا احتجاج اور تحفظات ڈرامہ ہیں انکا مزید کہنا تھا کہ پی پی پی حکومت پر دباؤ بڑھانے، مرضی کے فنڈز کا حصول اور اپنے مفادات کے حصول تک محدود ہے اگر انکو عوام کا ذرا بھی احساس ہے تو حکومتی بنچوں سے علیحدہ ہونا ہوگا۔ یہ تو ہوگئی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں مگر دوسری جانب وفاقی بجٹ میں بیشتر سبسڈیز کو ختم کرکے ٹیکسوں میں اضافہ کردیا گیا ہے جس سے مہنگائی کا مزید طوفان آنے کا خدشہ ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر 20 فیصد لیوی ٹیکس کی تجویز سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ مہنگائی کے تناسب سے گریڈ ایک تا سولہ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز بھی دیدی گئی ہے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے بجٹ سے ایک روز قبل جاری کئے گئے اقتصادی سروے میں مہنگائی کی شرح 48 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ سال ڈیفالٹ کے دہانے پر تھے صرف دو ہفتے کا زرمبادلہ رہ گیا تھا مگر حکومتی اقدامات سے ہم اس خطرے سے باہر آگئے ، فی الحال ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی پلان نہیں ہے۔ مالی سال 2022۔23 میں شرح نمو 2 فیصد کم رہی،روپے کی قدر 29 فیصد گری تاہم رواں مالی سال میں ریونیو کلیکشن میں 13 فیصد اضافہ ہوا اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 50 کروڑ ڈالر تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ دوسری جانب عوام نے اس بجٹ کو بھی الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتے ہوئے عوام دشمن بجٹ قرار دیا جارہا ہے کہ اس بجٹ میں عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ نئے ٹیکسز کی بھرمار کردی گئی ہے۔
اس حوالے سے ایوان تجارت و صنعت ملتان نے وفاقی بجٹ 2024-25 کو سخت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بجٹ سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ اور شہریوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ایوان تجارت و صنعت ملتان کے صدر میاں راشد اقبال، سینیئر نائب صدر ندیم احمد شیخ ،نائب صدر شیخ عاصم سعید ،سابق صدر خواجہ محمد حسین ،خواجہ محمد عثمان، سہیل طفیل ،خواجہ محمد فاروق ،شیخ فیصل سعید، نوید اقبال چغتائی ،سید افتخار شاہ کہا کہنا ہے کہ بجٹ میں اچھی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور سخت فیصلہ کو چھپایا گیا ہے، اب یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ حکومت کا سائز بڑا ہے اور اس کو چھوٹا کیا جائے گا مگر اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ کن وزارتوں اور محکموں کو ختم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پراپرٹی پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ سے اس سیکٹر پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ جائے گا اور اراضی/جائیدادوں کی خرید و فروخت میں بھی نمایاں کمی واقع ہوگی.حالیہ بجٹ کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح میں 5 سے 15 فیصد کا اضافہ متوقع ہے جس سے کم آمدنی والا طبقہ پس جائے گا۔انہوں نے کہا کہ حکومتی بجٹ کے بعد ادویات، بچوں کی خوراک، سٹیشنری سمیت متعدد اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔ملک میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہے جس سے صورتحال اور زیادہ سنگین ہو جائے گی۔نئے وفاقی بجٹ میں انکم ٹیکس سلیب میں بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ خوش آئند ہے تاہم پرائیویٹ سیکٹر اس پوزیشن میں نہیں کہ 37 ہزار روپے ماہوار تنخواہ ادا کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں آئی ٹی پارک کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے حکومت کو چاہیے کہ ملتان سمیت تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز پر آئی ٹی پارک قائم کیا جائے۔نئے وفاقی بجٹ میں گاڑی کے انجن کی بجائے اس کی ویلیو پر ٹیکس عائد ہونے سے شہریوں پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ بجٹ میں ٹیکسٹائل اور لیدر سیکٹر پر ٹیکس لگانے سے بھی نئے مسائل جنم لیں گے۔