وفاق اور دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان حکومت بھی آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں کررہی ہے وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی جانب سے عوام دوست بجٹ پیش کئے جانے کا امکان ہے جس سے صوبے کی عوام کو ریلیف ملے گا بجٹ میں سرکاری ملازمین اور عوام کی فلاح وبہبود کو ترجیح رکھا گیا ہے کیونکہ وزیر اعلی اس حوالے سے ہونے والے اجلاسوں میں بلوچستان کی تعمیروترقی پر بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں ۔وزیراعلی بلوچستان ان دنوں عوام دوست بجٹ کی تیاری میں مصروف عمل ہیں انکی معاونت کے لیے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی بیوروکریسی کررہی ہے اگر اس میں نمایاں کردار کے حامل سیکرٹری ٹو سی ایم عمران زرگون کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی بلوچستان کے سرکاری افسران و ماتحت کی تنخواہوں میں اضافے سے لیکر عوامی فلاحی منصوبوں کے قیام کے لیے اھم کردار ادا کررہے ہیں عمران زرگون سکالرشپ پر انگلینڈ سے اعلی کورس کرکے حال ہی میں واپس آئے ہیں عمران زرگون برطانیہ میں قیام کے عوام دوست تجربات کو پیش نظر رکھ کر بجٹ تجاویزکے لیے وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کی معاونت کررہے ہیں۔
وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ عوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے عمائدین اور سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں گے یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ بلوچستان حکومت نے اپنی حکمت عملی وضع کر لی ہے کہ قبائلی عمائدین اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ جامع مشاورت کے بغیر بلوچستان میں گورننس ممکن نہیں ہے۔ آئے روز ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہوں یا بلوچ عوام کو درپیش مسائل کا حل وہ نیک نیتی کیساتھ سیم پیچ کا بھی متقاضی ہے بلوچ عوام کو بنیادی سہولیات ہی نہیں ان کے حقوق کا تحفظ بھی اولین ترجیح ہونی چاہیئے پیپلز پارٹی نے آغاز حقوق بلو چستان پروگرام دیکر جسطرح بلوچ عوام کے احساس محرومی کے خاتمے کی بنیاد رکھی آج اسی تسلسل کی ضرورت ہے وزیر اعلی نے اپنی ترجیحات وضع کردی ہیں اب بلوچ عوام کو عملی طور پر اقدامات کرکے دکھانا ہوں گے۔بلوچستان حکومت کو پنجاب کی طرح مہنگائی میں کمی صحت تعلیم امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے جیسے چیلنجز درپیش ہیں خاص طور پر بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہاں پر امن و امان قائم رکھنا انتہائی مشکل امر ہے اور وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے اگر ہم دیگر صوبوں کا موازنہ بلوچستان سے کریں تو ہمیں احساس ہوگا کہ سب سے زیادہ زیرک معاملہ فہم اور دانشمند وزیر اعلی کی ضرورت اسی صوبے کو ہے پاکستان کی ترقی و خوشحالی بلوچستان میں امن و مان سے مشروط ہے اگر ہم رواں ہفتے کی بڑی ڈویلپمنٹس کا جائزہ لیں تو اول وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا حالیہ دورہ چین اور سی پیک کی بحالی اور فیز ٹو کے آغاز کا براہ راست تعلق بھی بلو چستان سے ہے۔دوم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا الیکشن جیت کر وزیر اعظم کا حلف اٹھانا اور پھر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے مودی کو مبارکباد کیساتھ یہ کہنا کہ آئیں نفرت کو امید سے بدلیں اور جنوبی ایشیا کے دو ارب انسانوں کی قسمت کو بدلیں۔جسکا جواب نریندر مودی نے گو کہ گرمجوشی سے دیا ہے لیکن بھارت کی جانب سے بلوچستان میں مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو فنڈنگ کرنے میں بھارت براہ راست ملوث رہا ہے صرف بھارت ہی نہیں بلکہ عالمی پلیئرز کی تمام اینٹی پاکستان سرگرمیوں کا مرکز بھی ہمیشہ سے بلوچستان ہی رہا ہے تاہم خطے کے دو ارب انسانوں کی قسمت بدلنے کا آغاز بھارت کو بلوچستان سے ہی کرنا ہوگا اگر میاں نوازشریف کی جانب سے نفرت کو امید سے بدلنے کی پیشکش کا بھارت مثبت جواب دینے کو تیار ہوتا ہے تو اسے بلوچستان میں امن کے فروغ کیلیئے سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اگر بلوچستان میں امن ہوگیا تو جنوبی ایشیا کے دو ارب انسانوں کی قسمت واقعی بدل سکتی ہے۔وزیر اعظم کا دورہ چین اور سی پیک کی بحالی و فیز ٹو کی قسمت کا دارومدار بھی بلوچستان میں امن سے مشروط ہے بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے سابق دور حکومت میں کیئے جانے والے ترقیاتی اقدامات پر بھاری فنڈز خرچ ہوئے سڑکوں کے جال بچھائے گئے لیکن اب ان سڑکوں کو دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے حصول اور قتل وغارت گری کے لیئے استمعال کررہے ہیں بلوچستان کی عوام دونوں جانب سے پس رہی ہے ایک تو حکومتی نااہلی اور دوسری جانب تخریب کاری ہے جس نے بلوچ عوام کے احساس محرومی میں اضافہ کیا ہے بلوچستان کے حساس ایشوز کو بردباری سے سلجھانے کی ضرورت ہے کیو نکہ بلوچستان ہی واحد ترکیب ہے جس کی بدولت پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔پاکستان میں ہونے والی تیسری بڑی ڈویلپمنٹ بھی بلو چستان سے ہی جڑی ہے اڈیالہ جیل کے قیدی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کیلیئے محمود خان اچکزئی کو مذاکرات کا اختیار دیا ہے۔قارئین میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ پاکستان کی قسمت بلوچستان کی ترقی سے مشروط ہے اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا یہ درست ہے ؟ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے محمود خان اچکزئی کو ہی مذاکرات کیلئے کیوں چنا ہے۔کیو نکہ ان کا تعلق بلوچستان سے ہے کیا اس لئے یا کو ئی اور وجہ ہے۔؟ محمود خان اچکزئی کا شمار سینئر سیاستدانوں میں ہوتا ہے اور وہ نواز شریف اور آصف علی زرداری سے قریبی تعلق بھی رکھتے ہیں لیکن کیا وہ ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے حقیقی سٹیک ہولڈر زتک عمران خان کا پیغام پہنچا سکیں گے اور مذاکرات کی راہ ہموار کر پائیں گے آئندہ چند روز میں صورت حال واضح ہو جائے گی لیکن بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کا عندیہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب وہ این آر او مانگ رہے ہیں اور کیا وہ اس میں کامیاب ہو سکیں گے۔؟ غالب امکان یہی ہے کہ عمران خان کیلئے مذاکرات کے راستے بند ہوچکے ہیں اور انہیں این آر او نہیں ملے گا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی عوام دوست بجٹ کی تیاری
Jun 13, 2024