غزّہ :مسلم حکمرانوں کی غیرت کا امتحان.

7اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کر کے اسرائیل کو ہی نہیں دنیا بھر کو چونکا دیا۔ حماس کے اس حملے نے اسرائیل کی تمام تر برتری کو خاک میں ملا دیا۔ یہ حملہ 1967ء سے اسرائیلی قبضے اور 2006ء سے جاری حملوں کے خلاف ردِ عمل تھا۔ طوفان الاقصیٰ دراصل مکمل طور پر بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کو مزاحمت کا حق دیتا ہے۔ اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کو تباہ وبرباد کرنا شروع کر دیا۔اب جبکہ جنگ 8ویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔دنیا کی تاریخ میں ایسی مثال موجود نہیں کہ ایک چھوٹی سی نہتی آبادی، بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کی 5 ویں بڑی فوجی طاقت کے خلاف اتنے لمبے عرصے تک اتنی جرات وبہادری سے لڑے۔اسرائیل نے جس ظالمانہ انداز میں غزہ پر بمباری کی اس سے غزہ کے 70 سے80 فیصد گھر، تمام بڑی بڑی عمارتیں ، رہائشی فلیٹس تباہ ہو گئے۔ پانی بجلی،سیوریج سسٹم ، ٹیلی فون وانٹرنیٹ نظام منہدم ہو چکے ،یہ بمباری گزشتہ ایک سو سالہ دنیا کی تاریخ میں شدید ترین تھی۔ جنگ عظیم اوّل اور دوم میں بھی شاید اتنی شدید بمباری نہیں ہوئی تھی۔
اسرائیل اور امریکہ کے اندازے تھے کہ شدید بمباری اور کھانے پینے کی اشیاء کو غزہ جانے سے روک دینے سے اہلِ غزہ ،غزہ چھوڑ کر نکل جائیں گے اور یوں غزہ کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل ہو جائے گا لیکن اہل غزہ کی جرأت وبہادری ، استقامت اور پامردی نے ان کے سارے اندازے غلط ثابت کر دیئے، جانوں کے نذرانے ہوں یا گھر بار کے، مال ومنال کے ہوں یا جائیداد و کاروبار کے۔ اہل غزہ نے قربانیوں کا اک جہاں روشن کرکے مثال پیش کر دی کہ اہل ایمان ایسے جیتے ہیں۔اسرائیل نے13 لاکھ سے زائد اہلِ غزّہ کو رفح میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا، اسرائیلی حملے رفح میں بھی جاری ہیں ان سارے نقصانات کے باوجود جنگ جاری ہے،رک نہیں سکی البتہ اسرائیلی فوجی برتری اور غرور خاک میں مل گیا ہے۔ہر مقام پر بالخصوص سفارتی محاذ پر اسرائیل کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے ، عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات کی اب وہ کیفیت نہیں رہی ،فلسطین ایشو دوبارہ عرب اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکز ومحور بن گیا ہے۔ حماس اور اہل فلسطین کی مزاحمت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ حماس اور اہل غزہ نے تاریخ اسلام میں قربانیوں کے نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ 
اسرائیل نے اپنے ظلم وجور اورسفاکیت کے ذریعے غزہ کی پوری پٹی کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے، 23 لاکھ کی آبادی گھر سے بے گھرہو چکی، خوراک، ادویات، بنیادی ضروریات سے محروم اور دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے،رفح میں پناہ گزین کیمپوں پر آئے روز اسرائیلی بمباری معصوم بچوں، خواتین، مردوں کی شہادت، خیموں کا جلایا جلانا اور جبالیہ میں صیہونی فوج کی درندگی کیواقعات عام انسانیت کے لئے لمحہ فکریہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے منہ پر طمانچہ سے کم نہیں ہے۔الجزیرہ کے مطابق جنگ کے آغازسے 7جون 2024ء تک غزہ میں اس وقت تک 36731 فلسطینی شہید،جن میں 15000 سے زیادہ بچے اور 10000ہزار سے زائد عورتیں جبکہ 88 ہزار سے زائد زخمی شامل ہیں، تقریباً 10 ہزار لاشیں تباہ شدہ گھروں کے ملبے کے نیچے دبی پڑی ہیں۔ اس لئے ان کے نام شہداء کی فہرست میں شامل نہیں۔ اسرائیل کی مسلسل فائرنگ اور حملوں کے سبب سردست شہداء کی میتیں تلاش کرنا اور نکالنا ممکن ہی نہیں۔
امریکا، برطانیہ،فرانس،جرمنی،آسٹریلیا سمیت دیگر یورپی ممالک اوران کے حکمران مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کے پشتیبان بن کر بے دریغ اسلحہ،گولہ بارود اور فوجی ساز و سامان فراہم کر رہے ہیں۔اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے، عالمی عدالتِ انصاف سمیت تمام بین الاقوامی ادارے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی و صیہونی سفاکیت اوردرندگی کے سامنے بے بس نظرآتے ہیں۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے، اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی دباؤ کی پرواہ کیے بغیر اہلِ غزہ و فلسطین پر بارود و آہن کی بارش جاری رکھے ہوئے ہے، دنیا بھر کے امن پسند عوام اور طلبہ غزہ پر بدترین اسرائیلی بربریت کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن ناجائز صیہونی ریاست کسی بھی بین الاقوامی دباؤ اور مطالبے کو ماننے کے لیے تیارنظر نہیں آتی۔ ایک طرف امریکا و مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش ہیں تو دوسری طرف عالمِ اسلام کے بے حس اور بے حمیت حکمران  فلسطینیوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔فلسطینی، بچوں، خواتین، بزرگوں، نوجوانوں کی آہوں اور سسکیوں سے عرب حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، آئے روز اسرائیلی بمباری میں درجنوں بچوں، خواتین، نوجوانوں اور عمررسیدہ فلسطینیوں کی شہادتیں عالمِ اسلام کے حکمرانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے میں ناکام ہیں۔ اْمت مسلمہ کے حکمرانوں کی اس عمومی سردمہری اور بے حسی کے ماحول میں اسلامی جمہوریہ ایران کا کردار اور اہلِ فلسطین و غزہ کے ساتھ یکجہتی اور تعاون قابل تقلید ہے۔ جماعتِ اسلامی نے حسبِ سابق اپنے فلسطینی بھائیوں کی دامے، درمے، سخنے مدد کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے ذریعے اہلِ غزہ کے لیے ہزاروں ٹن امدادی سامان اور ادویات غزہ پہنچائی گئیں،میڈیکل ٹیمیں بھی اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں، پاکستان  میں بھی جماعتِ اسلامی نے مسلسل اہلِ فلسطین اور القدس کی آزادی کے لیے تاریخ ساز مظاہروں اورریلیوں کے ذریعے بھرپور انداز میں آواز بلند کی ہے اور اسلامیان پاکستان کو اس درد سے آگہی دی اور فلسطینیوں کی پشت پر کھڑا کیا۔نَومنتخب امیرجماعت حافظ نعیم الرحمن مسلسل فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر کیبیداری کا درس دے رہے ہیں۔اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی مجاہدین اورعوام کی کامیاب مزاحمت اور استقامت خراجِ تحسین کے لائق ہے۔فلسطین، فلسطینیوں کا ہے۔ اسرائیل ناجائز ریاست ہے، مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے مظاہرے لائق تحسین اور بڑی قدر کے حامل ہیں اور انصاف پسند شہریوں اور نوجوانوں کا دنیا بھر میں آواز بلند کرنا نام نہاد مہذب ممالک کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف کیس دائر کرکے انسانیت دوستی کا ثبوت دیا۔ دنیا بھر کی جامعات میں طلبہ کا مذہبی وابستگی سے بالاتر ہوکر اہلِ فلسطین و غزہ کے حق اور اسرائیل کی مذمت میں مظاہرے لائقِ تحسین اور امریکی و  یورپی حکمرانوں کے لیے سبق اورآئینہ ہیں۔ اسپین، ناروے، ائرلینڈ اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے قابل خیرمقدم ہیں۔
آج دنیا بھر میں ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے بیشتر ممالک اسرائیل اور اس کی پالیسیوں کے خلاف نظر آتے ہیں خود اہل مغرب اسرائیل جارحیت اور ظلم وبربریت کے خلاف نکلے ہیں اور اپنی حکومتوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ اسرائیل پہلی بار تاریخ میں تنہا تنہا اور چھوٹا نظر آتا ہے۔عالم اسلام اہلِ فلسطین وغزّہ سے ایک دِن عالمی یومِ یکجہتی کے طور پر منائے اوراسی طرح ایک دِن اہلِ غزہ کے بچوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے مختص کرے اور دنیا بھر کے بچوں کے مظاہروں کا اہتمام ہو ،فلسطین کی آزادی کے لئے یہ کوششیں ایک دن ضرور رنگ لائیں گی اوران شا اللہ، فلسطین کی آزادی کا سورج طلوع ہوکررہیگا۔

ای پیپر دی نیشن