پنجاب پولیس کے چند افسر اور اہلکار کچے کے ڈاکوئوں کے سہولت کار ہیں۔ رپورٹ
یہ کچے کے ڈاکو ویسے ہی تو خطرناک غیر مکی اسلحہ لے کر گھومتے شہریوں کو اغوا نہیں کرتے۔ ان کو اس حوالے سے پوری اطلاع ہوتی ہے کہ آئو جو کرنا ہے کر لو ہم اس وقت آڑے نہیں آئیں گے۔ بس ہمارا حصہ ہم کو ملنا چاہیے۔ کئی ماہ سے جاری آپریشن کے باوجود کیا ہوا؟۔ آج بھی ڈاکو لوگوں کو اغوا کر کے تاوان وصول کر رہے ہیں۔ ان کی یہ دلیری دیکھیں کہ اس ساری کارروائی کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر بھی وائرل کرتے ہیں، کسی دلیر نے منہ نہیں چھپایا ہوتا۔ مغویوں پر تشدد، جدید اسلحہ اور نوٹوں کی ڈھیریاں دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ آج بھی کچے کے ڈاکوئوں کے علاقے محفوظ ہیں۔ آپریشن تو لگتا ہے کھیتوں میں ہو رہا ہے یا خالی متروکہ جھونپڑیوں میں جہاں کوئی نہیں رہتا۔ اگر ہوتا تو کوئی ڈاکو گرفتار نہ ہوتا؟۔ آخر ان ڈاکوئوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ یہ کہاں چھپے ہوتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کی پولیس ہی نہیں رینجرز بھی ان پر حملہ آور ہے مگر کچھ نتیجہ نہیں نکل رہا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ خود پولیس میں بھی ان کے سہولت کار موجود ہیں جو انہیں لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھتے ہیں۔ پولیس کی ہی رپورٹ کے مطابق تھانہ بھونگ اور کوٹ سبزل کے ایس ایچ او اور سی آئی اے انچارج سمیت 5 پولیس والے ان ڈاکو?ں کے دست راست ہیں۔ اگر بااثر سیاسی و غیر شخصیات کے بھی نام ظاہر کئے جائیں تو فہرست اتنی طویل ہو گی کہ پڑھتے ہوئے لوگ شرم سے پانی پانی ہو جائیں گے۔ اسی لیے پرانے لوگوں نے کہا ہے کہ چور سے پہلے اس کی ماں کو مارو ورنہ جب تک یہ سہولت کار موجود رہیں گے کچے کے ڈاکو ختم نہیں ہوں گے اور لوگ یونہی اغوا ہوتے رہیں گے چاہے کوئی لاکھ آپریشن کرتا رہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پی کے اور علیمہ خان کی نئی ویڈیو ریکا رڈنگ لیک۔
اب اتنی فرصت کسی کے پاس کہاں ہے کہ وہ ویڈیو کی تصدیق کرتا پھرے۔ سوشل میڈیا پر جو آیا چھا گیا۔ لوگ تو مرچ مصالحہ لگا کر بات کو مزید آگے پھیلاتے ہیں۔ اب گزشتہ روز جو ویڈیو لیک ہوئی اس میں علی امین گنڈا پور اور علیمہ خان پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے ساتھ اڈیالہ جیل سے قیدی کو چھڑانے کے مختلف موضوع پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ علی امین گنڈا پور تو کچھ زیادہ جذباتی ہو کر حسب سابقہ دھرنا دینے اور نعشیں گرانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اب وہ کہتے ہیں قیدی اپنی رہائی کی کال نہیں دے گا تو ہمیں خود اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دینا ہو گا۔ کچھ بھی ہو جائے ہماری نعشیں گریں ہم وہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں عید کے بعد کسی نئے سانحہ کی منصوبہ بندی تو نہیں کی جا رہی۔ پہلے ہی اس دھرنا سیاست نے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ دھرنا سیاست ہماری معیشت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہے۔ اس سے جان چھڑانا ہو گی۔ جب عدالتیں موجود ہیں اور پارلیمنٹ بھی تو یہ جنگ وہاں لڑی جائے۔ کب تک ہمارے سیاسی فیصلے سڑکوں پر دھرنا دینے سے ہی ہوں گے۔ خدا خدا کر کے معاشی سمت کی بہتری کے اشارے ملے ہیں تو اب پھر ایسے حالات پیدا نہ کئے جائیں کہ اس راہ میں پھر رکاوٹیں پیش آئیں۔ اس احتجاجی سیاست کی وجہ سے دنیا بھر میں ہم سکیورٹی رسک والے ممالک میں شامل ہیں۔ لوگ یہاں آنے سرمایہ کاری کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اب اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد ایک نیا سیاسی تماشہ شروع ہو گا اور لوگ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے اپنا اپنا کلیجہ ٹھنڈا کریں گے۔
پاکستان میں گدھوں کی تعداد ایک لاکھ کیاضافہ سے 59 لاکھ ہو گئی۔ بجٹ رپورٹ
ہمیں تو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر یہ کیا راز ہے کہ ملک میں گھوڑوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ اونٹوں کی تعداد میں اضاہ نہیں وہ جوں کی توں ہے۔ مگر گدھوں کی تعداد میں سالانہ ایک لاکھ اضافہ ہوا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ملک بھر میں اس مسکین صورت جانور کے گوشت کو گائے بکرے کا گوشت بتا کر ہوٹلوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ مگر اس بجٹ رپورٹ کے مطابق اس سے پاکستانیوں کی محبت کا یہ عالم ہے کہ اس کی افزائش کی شرح بہتر رہتی ہے۔ لگتا ہے گدھوں سے پاکستانیوں کو بہت محبت ہے اس لیے تو ہر جگہ گدھے نظر آتے ہیں ہر کام انہی سے لیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ ظلم بھی اسی مظلوم پر ہوتا ہے۔ مار کھانے کے بعد بھی یہ خاموش رہتا ہے۔ اف تک نہیں کرتا۔ دنیا بھر کے گدھے کبھی کبھی غصے میں آ کر دولتی جھاڑ دیتے ہیں۔ مگر آفرین ہے پاکستانی گدھوں پر کہ وہ ہر ظلم و ستم سہہ کر بھی ایسی نازیبا ناروا حرکت نہیں کرتے۔ اس لیے ان کو داد دینا پڑتی ہے کہ یہ کٹتے ہیں پٹتے ہیں۔ بھوکے رہتے ہیں وزن اٹھاتے ہیں مگر اف تک نہیں کرتے۔ اسی لیے گھوڑوں اور اونٹوں کے مقابلے میں انہیں پالنا بھی آسان ہوتا ہے۔ کم خرچے میں یہ بہت کام کرتے ہیں اور ان کے ناز و نخرے بھی اٹھانا پڑتے۔ اگر پاکستان میں گدھا فارمنگ کو ترقی دی جائے اور بے روزگار لوگ گدھے پال کر چین والوں کو فروخت کریں تو سالانہ اچھے حاصے پیسے کما سکتے ہیں۔ چائنا میں گدھوں کی بہت مانگ ہے۔ وہاں اس کا گوشت ایک مقبول عام ڈش ہے اور اس کی کھال اور ہڈیوں تک سے وہ بے شمار چیزیں تیار کر کے واپس ہم بھی فروخت کر کے دوگنا منافع کما کر حساب برابر کرتے ہیں۔ امید ہے بیروزگار اس
کام پر غور کریں گے۔
مارگلہ ہلز نیشنل پارک سے تمام ہوٹلوں کوشفٹ کیا جائے۔ عدالت کا حکم
جو کام محکمہ ماحولیات نے کرنا تھا وہ اب عدالت نے کر دیا ہے۔ چلو دیر آید درست آید۔ مارگلہ ہلز پر قائم نیشنل پارک میں جنگل اور جنگلی حیات کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر سی ڈی اے والے شاید مٹھی گرم کرنے پر اس طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ جبھی تو اس لاپروائی کے نتیجہ میں مارگلہ ہلز پر نیشنل پارک میں ہوٹلوں کا کاروبار عروج پر ہے۔ جس سے قدرتی ماحول تباہ ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ پراسرار طور پر ہر سال کئی بار مارگلہ کے جنگلات میں آگ لگنے سے کافی نقصان بھی رہا تھا۔ کئی بار تحقیقاتی کمیٹیاں بنیں مگر رپورٹ دبا دی جاتی رہی۔ اب عدالت میں معاملہ آیا تو پتہ چلا کہ نیشنل پارک میں موجود ہوٹلز مافیا بھی اس معاملہ میں ملوث ہے۔ گرمی سے آگ اتفاقی حادثہ ہوتا ہے۔ مگر خوددانستہ یا نادانستہ آگ لگانے کو تخریب کاری ہی کہا جا سکتا ہے۔ آخر اس پارک میں موجود جنگلی حیات جن میں تیندوے، ریچھ ،بندر، سور اور درجنوں اقسام کے پرندے بھی شامل ہیں، جائیں تو جائیں کہاں۔ ان کا رین بسیرا تو یہی جنگل ہے۔ ہمارے ملک میں ویسے ہی جنگل رہ کہاں گئے ہیں۔ لینڈ مافیاز نے ہر جگہ قبضہ جما رکھا ہے۔ اسی لیے اب عدالت نے تنگ آ کر مارگلہ میں قائم تمام ہوٹلوں کو 3 ماہ کے اندر اندر یہاں سے کہیں اور منتقل ہونے کا حکم دیا ہے ورنہ انہیں سیل کر دیا جائے گا۔ امید ہے اس سے جنگل میں رہنے والے چرند و پرند میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہو گی اور ہوٹل مافیا کے دلوں میں آگ لگ گئی ہو گی۔ اب کوئی بااثر حلقے اس نیک کام میں رکاوٹ ڈال کر بدنامی مول نہ لیں اور یہ اچھا کام ہونے دیں۔ آخر کب تک ہم اپنی زرخیز زرعی اراضی اور جنگلات کاٹ کاٹ کر تیزی سے اپنی تباہی کا سامان خود پیدا کرتے رہیں گے۔