اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں کے نفاذ کے ذریعے نئے پروگرام کے حصول کے لیے بجٹ کو آئی ایم ایف کے تقاضوں سے ہم اہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تاہم بجٹ میں کئے جانے والے فیصلوں پر موثر طور پر عمل درآمد چیلنج ہو سکتا ہے۔ فنانس بل کو آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا جائے گا، اور عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے کسی نئی تجویز کی صورت میں وزیر خزانہ بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے رد و بدل کا اعلان کر دیں گے۔ وفاقی بجٹ میں ان تمام سیکٹرز کو اضافی طورپر ٹیکس کر دیا گیا ہے، جن کے ٹیکس نہ دینے یا کم ٹیکس ادا کرنے کے بارے میں آئی ایم ایف کے اعتراضات تھے۔ بجٹ میں پراپرٹیز، پرچون فروشی، تنخواہ دار اور غیر تنخوخواہ طبقہ پر ٹیکسوں میں اضافہ، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، اور فیڈرل ایکسائز میں دی جانے والی رعایات کو واپس لیا جانا شامل ہے۔ وفاقی بجٹ میں 1500 ارب کی یہ رعایات ختم کی گئی ہیں۔ اب انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز میں بہت کم ایگزمپشنز باقی رہ گئی ہیں۔ حکومت نے پینشن پر ٹیکس عائد نہیں کیا، اس طرح پینشنرز کا ریلیف برقرار رکھا گیا اور آئی ایم ایف کے دبائو کا سامنا کیا گیا جو پینشنرز پر ٹیکس کے نفاذ کا کہہ رہا تھا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے لیے اہم شرط یہ رہے گی کہ جو ٹیکس اقدامات کیے گئے ہیں وہ ایف بی آر کے ریونیو کے ایک ہدف کو حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ اگر ریونیو میں کوئی کمی واقع ہوئی تو ہنگامی پلان بھی تیار کیا گیا ہے۔ معاشی حلقے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ وفاقی بجٹ کے بعد اب آئی ایم ایف کے پروگرام کے حصول میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ جولائی سے افراط زر کے دبائو کو روکنے کے لئے حکومت کو حکمت عملی بنانا پڑے گی۔
نئے ٹیکس: بجٹ کو آئی ایم ایف کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش
Jun 13, 2024