تنخواہوں، پنشن میں اضافہ: سولر پینل سستے، موبائل فونز، سگریٹ، سٹیل، سیمنٹ، گاڑیاں مہنگی

Jun 13, 2024

اسلام آباد (وقار عباسی + رانا فرحان اسلم) وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال  25-2024ء کا بجٹ پیش کر دیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد تک کا اضافہ جبکہ مزدور کی کم از کم اجرت 37 ہزار روپے مقررکرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ بجٹ میں  گریڈ 17سے 22تک کے افسران کی تنخواہوں میں 20 فیصد جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 15فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے بجٹ میں حکومت نے گریڈ 1سے 16تک کی تمام خالی اسامیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے وفاقی حکومت کو 45 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ حکومت نے وفاق پر پینشن کی مد میں بوجھ کو کم کرنے کے لیے سرکاری ملازمین کی پینشن کے حوالے سے اصطلاحات لانے کا اعلان کیا ہے اس ضمن میں معاون پینشن سکیم اور پینشن فنڈ قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں 27فیصد اضافہ، کفالت پروگرام میں 7لاکھ نئے خاندانوں کو شامل کرنے، نشوونما پروگرام میں 5لاکھ خاندانوں کو شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بجٹ میں حکومت نے اسلام آباد کے 200پرائمری سکولوں میں غذا کی فراہمی، 16پوسٹ گریجوایٹ کالجز کو چار بڑی جامعات کے ساتھ منسلک کرنے اور اسلام آباد کی دیہی علاقوں سے آنے والی طالبات کے لیے الگ سے پنک بسوں کے چلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے تاجر دوست اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سکیم کا مقصد ہول سیلرز، ڈیلز اور ریٹیلرز کو رجسٹر کرنا ہے اور اب تک ہم 30ہزار 400 افراد کی رجسٹریشن کر چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید تیزی لائی جائے گی، جس کے لیے موجودہ ڈیٹا کا موثر استعمال کیا جائے گا۔ اخراجات میں کمی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی بی ایس ایک سے 16 تک تمام خالی آسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے جس سے 45ارب روپے سالانہ کی بچت ہونے کا امکان ہے جبکہ وفاقی کابینہ کے حجم کو کم کرنے کے لیے بھی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت کے بجٹ کا بڑا حصہ گڈز اینڈ سروسز کی پروکیورمنٹ میں صرف ہوتا ہے، پروکیورمنٹ کے نظام میں آسانی اور شفافیت کے ذریعے حکومت کی کارکردگی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ وسائل کی بچت بھی کی جا سکتی ہے اور ای پروکیورمنٹ کے ذریعے سرکاری خرچ میں 10 سے 20 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے جبکہ یہ نظام میں کرپشن، فراڈ اور بدنیتی جیسے مسائل پر قابو پانے میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے سینیٹر نے کہا کہ یہ نظام 37وزارتوں اور 279 پروکیورنگ ایجنسیوں میں نافذ ہو چکا ہے جس کے تحت 14 ارب روپے کی پروکیورمنٹ ہو چکی ہے، پروکیورمنٹ ایجنسیوں کے ساڑھے 8ہزار ملازمین کی تربیت مکمل کی جا چکی ہے اور 10ہزار 545 سپلائرز اس نظام میں رجسٹر ہو چکے ہیں۔ وفاقی حکومت پر کھربوں کی غیر فنڈ شدہ پنشن کی ذمہ داری ہے، پینشن کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، لہزا ان اخراجات میں اضافے کی شرھ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اس کے لیے تین جہتی حکمت عملی ترتیب دی ہے جس میں کافی حد تک مشاورت مکمل ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی بہترین طریقوں کے مطابق موجودہ پینشن سکیم میں اصلاحات لائی جائیں گی، ان کے نتیجے میں اگلی تین دہائیوں میں پینشن کی ذمہ داری میں کمی آجائے گی۔ نئے ملازمین کے لیے معاون پینشن سکیم ( contributory) متعارف کرانا ہے جس میں حکومت کی شراکت (contribution) ہر ماہ ادا کی جائے گی۔ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کفالت پروگرام کے تحت مستفید ہونے والے افراد کی موجودہ تعداد کو 93 لاکھ سے بڑھا کر 1 کروڑ تک کر دیا جائے گا، تعلیمی وظائف میں مزید 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا، جس سے ان کے وظائف کی کل تعداد 1 کروڑ 4 لاکھ ہو جائے گی۔ جبکہ بچوں کی نشونما کے لیے ہم سکول میل پروگرام متعارف کروا رہے ہیں جس کے تحت اسلام آباد کے 200 پرائمری سکولوں میں طلبہ کو متوازن اور غذائیت سے بھر پور کھانا فراہم کیا جائے گا۔ اسلام آباد کے سولہ (16) ڈگری کالجوں کو NUML ،NSU ،NUST اور COMSATS جیسی مشہور یونیورسٹیوں کے تعاون سے اعلیٰ نتائج کے حامل تربیتی اداروں میں تبدیل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دیہی سے شہری علاقوں تک طالبات کے سفر کے لیے پنک بسیں متعارف کرناے کے ساتھ ساتھ دانش سکولوں کے پروگرام کو اسلام آباد، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارے معاشی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ان کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر کے فروغ کے لیے بجٹ میں 86.9 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، یہ رقم Re-imbursment of TT Charges، سوہنی دھرتی سکیم اور دیگر سکیموں کے لیے استعمال کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر معمولی خدمات کو تسلیم کرنے کے لیے محسن پاکستان ایوارڈ متعارف کرایا جا رہا ہے اور اسی طرح کے دیگر اقدامات سمندر پار پاکستانیوں کی معاونت اور قومی ترقی میں ان کے تعاون سے فائدہ اٹھانے کے لیے حکومت کے عزم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برآمدات کے شعبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے EXIM Bank کے ذریعے ایکسپورٹ ری فنانس سکیم کے لیے مختص رقم کو 3.8 ارب سے بڑھا کر تیرہ 13.8 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے اور ان اقدامات سے پورٹ فولیو میں 100 سے 280 ارب روپے تک کا اضافہ متوقع ہے جبکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ذریعے 539 ارب روپے کے ایکسپورٹ کریڈٹ کی فراہمی کی جائے گی۔ ملک پر موسمیاتی تبدیلی کے مرتب ہونے والے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا شدید خطرہ لاحق ہے اور اس سلسلے میں حکومت کام کررہی ہے، نیشنل کلائمیٹ فنانس اسٹریٹیجی اکتوبر 2024 تک تیار کرلی جائے گی جس کا مقصد گلوبل کمائمیٹ فنانس کو پاکستان لانا ہے جس سے ملک میں کاربن کے اخراج میں کمی لانے کے منصوبوں پر عمل کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال 24-2023ء کے بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 25 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے جب کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کے لیے 20 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ جبکہ پینشن میں 15فیصد اضافے اور  ملازمین کی کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز بھی بجٹ کا حصہ ہے۔ فنانس بل میں پٹرولیم منصوعات پر فی لیٹر لیوی 20 روپے تک بڑھانے کی تجویز دیتے ہوئے لیوی کی حد 60 روپے سے بڑھا کر 80روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ملک کے دفاعی اخراجات کے لیے 21 سو 22 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دینے کے ساتھ ساتھ موبائل فونز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی بجٹ کا حصہ ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت نے مالی بجٹ 2024-25ء کے لئے پی ایس ڈی پی کے تحت وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مختلف منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 12877ملین روپے، وفاقی وزارت تعلیم کے لئے 20,251روپے، وزارت قومی صحت کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے 27000ملین روپے اور ہائیر ایجوکیشن کمشن کیلئے60,000 ملین روپے مختص کئے گئے ہیںمالی بجٹ سال 2024-25کے پبلک سروس ڈویلپمنٹ پروگرام میں وزارت موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی روابط کے پہلے سے جاری چار اور ایک نئے منصوبے کیلئے مجموعی طور پر 12877ملین روپے مختص کئے گئے مالی سال 2024-25ء کے لئے وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت پی ایس ڈی پی کے تحت جاری منصوبوں کے لئے 5936 اور نئے منصوبوں کے لئے 14315ملین روپے مختص کیے۔ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی بجٹ میں وزیراعظم ڈائرایکٹو کے تحت جموں کشمیر کے 16سو طلباء کے لئے 250 ملین روپے مختص کر دئیے۔ مالی بجٹ 2024-25 ء میں پی ایس ڈی پی کے تحت وفاقی تعلیمی اداروں کی بنیادی سہولیات کے لئے 3200میلین روپے مختص کر دئیے۔ مالی بجٹ 2024-25کے لئے پی ایس ڈی پی کے تحت وزیراعظم یوتھ سکل پروگرام کے لئے 4000ہزار ملین روپے مختص کئے گئے ہیںوفاقی حکومت نے مالی سال 2024-25کے دوران ہائر ایجوکیشن کمشن (ایچ ای سی)کی 141جاری اور 19 نئی سکیموں کے لیے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 60,000ملین روپے رکھے ہیں۔ بجٹ دستاویز کے مطابق جاری سکیموں کے لیے تقریبا 41,871.792 ملین روپے اور نئی سکیموں کے لیے 18,128.208ملین روپے رکھے گئے ہیںجاری سکیموں میں افغان طلبا کو علامہ محمد اقبال کے 3000وظائف کے لیے 900 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد کے اکیڈمک بلاک کی تعمیر کیلئے450 ملین روپے باچا خان یونیورسٹی، چارسدہ کی ترقی اور نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کی ترقی کے لیے 400 ملین روپے مختص کیے گئے، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے کیمپس کے قیام کے لیے 400ملین روپے، کامیاب جوان اسپورٹس اکیڈمیز (ہائی پرفارمنس اینڈ ریسورس سینٹرز) اور یوتھ اولمپکس ایچ ای سی کے قیام کے لیے 500ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بلتستان سکردو یونیورسٹی کے قیام کے لیے 500ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ فلبرائٹ سکالرشپ سپورٹ پروگرام( HEC-USAID)فیز-IIIکے لیے 759 ملین روپے کی رقم بھی مختص کی گئی ہے، ایم ایس اور پی ایچ ڈی کی اوورسیز سکالرشپس کیلئے3890 ملین روپے پاک-امریکہ نالج کوریڈور(فیزI) کے تحت پی ایچ ڈی سکالرشپ پروگرام کے لیے 3000ملین روپے مختص کیے گئے ہیں انسٹی ٹیوٹ آف سپورٹس کے قیام کے لیے 100ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔  نئی سکیموں میں وفاقی حکومت نے ہائر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ پروگرام آف پاکستان نے وزیراعظم لیپ ٹاپ سکیم کے لئے 6000ملین جبکہ نظر ثانی شدہ پروگرام کیلئے10000 ملین روپے رکھے ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم کے یوتھ انٹرن شپ پروگرام کے لیے 30 ملین روپے، مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی، آٹومیشن اور انوویشن سینٹر کے قیام کے لیے100 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ مالی سال 2024-25ء میں سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت وزارت قومی صحت کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے 27000ملین روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق ترقیاتی منصوبوں پر 885ملین روپے غیر ملکی قرضوں کی مد میں جبکہ 26115ملین روپے کے فنڈز قومی وسائل سے خرچ کئے جائیں گے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق جاری منصوبوں پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 82166.833 ملین روپے لگایا گیا ہے۔ وزارت قومی صحت کے جاری منصوبوں کے لئے 31408.298 ملین روپے کے فنڈزکا اجرا متوقع ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران پہلے سے جاری منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر 7581.330ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔  بجٹ دستاویز قومی صحت کے ان منصوبوں کیلئے غیر ملکی امداد کی مد میں 590ملین جبکہ قومی وسائل سے 6991.330ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزارت قومی صحت کے مختلف نئے منصوبوں کے لئے آئندہ مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 19418.670ملین روپے کے فنڈزمختص کئے گئے ہیں۔
اسلام آباد  (عترت جعفری)  مالی سال کے بجٹ میں 3800 ارب روپے سے زائد کے ریونیو اقدامات کیے گئے ہیں۔ 2 ہزار ارب روپے کے  اقدامات  ریونیو کی  گروتھ، عدالتوں میں پھنسے ہوئے معاملات  کے تصفیہ اور دیگر اقدامات سے حاصل ہوں گے، 1800 ارب روپے کے نئے اقدامات ہیں، ان کے تحت سیلز کیس، انکم ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 1500 ارب روپے کی ایگزامپشنز ختم کر دی گئی ہیں۔ کمرشل پراپرٹیز کی فروخت اور رہائشی  پراپرٹی کی پہلی فروخت پر پانچ فیصد  ایکسائز ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔  فلٹرراڈ پر ڈیوٹی کو 1500 روپے فی کے جی سے بڑھا کر 80 ہزار روپے فی کے جی کر دیا۔ سگریٹ سازی   کے رسمی سیکٹر کو اس کی ایڈجسٹمنٹ دی جائے گی۔ مینوفیکچررز کو چینی کی سپلائی پر 15 روپے فی کے جی کے حساب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔  ای لیکوڈز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹ کو بڑھا دیا گیا ہے۔ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈی پی دو روپے فی کے جی سے بڑھا  کر تین روپے فی کے جی کر دی گئی ہے، غیر قانونی سگریٹ فروخت کرنے والوں کے بزنس کو سیل کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے، ڈپلومیٹ اور ڈپلومیٹک مشن کو ایکسائز ڈیوٹی کا استثنی دے دیا گیا ہے، سیلز ٹیکس کی مد میں 434 ارب روپے کی ایگزامپشنز کو ختم کیا گیا، انکم ٹیکس کی مد میں 415 ارب روپے اور کسٹم ڈیوٹی کے مد میں 50  ارب  روپے کی ایگزامپشنز کو ختم کیا گیا۔ انکم ٹیکس کی مد کئے جانے والے  اقدامات سے 443 ارب روپے  حاصل  ہوں گے، سیلز ٹیکس کے  اقدامات سے ، 485ارب روپے، ایکسائز کی مد میں 289 ارب روپے، اور کسٹم ڈیوٹی کے مد میں 17 ارب اور روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا، پولٹری فیڈ  پر  سیلز  ٹیکس کی ایگزیمپشن کو ختم کر دیا گیا ہے اور اس پر 10 فیصد جی ایس ٹی لگا دیا گیا  نیوز پرنٹ پر بھی  سیلز ٹیکس لگ گیا ہے ، ہیلتھ  سیکٹر میں  موجود  سی جی ایس ٹی کی ایگزمشنز کو واپس لے لیا گیا ہے، کسٹم کی مد میں   جو ریلیف کے اقدامات کیے گئے ہیں ان کے تحت کے را مٹیریلیز پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کی ایگزامشنز دی گئی   ،نئی اور استعمال شدہ گاڑیوں پر ڈیوٹی کو بڑھا دیا گیا ہے،  ائرن کی فلیٹ فولڈ مصنوعات، اور نان الائے سٹیل پر ریگولیٹری ڈیوٹی کو یا بڑھایا گیا ہے ، فوڈ کنفیشنری کی طرف سے خشک  میوہ جات  اور  ماجرین کی درامد پر ریگولیٹری  ڈیوٹی  کی ایگزمپشن ختم کر دی گئی،، سلور کینز اور لولی پاپ سٹکس کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی گئی ہے،  تازہ پھلو ں  کی درامد پر کسٹم ڈیوٹی لگا دی گئی ہے، ہوم اپلائنسز  تیاری کے لیے ان  پٹ  کی درامد پر ڈیوٹی کے استثنا کو ختم کیا گیا ہے، ہائبرڈ وہیکلز  درامد پر ڈیوٹی کی رعایات کو واپس لے لیا گیا ہے، ان پر معمول کی ڈیوٹی لگے گی، 50 ہزار امریکی ڈالر سے زائد مالیت  کی الیکٹرک وہیکلز پر کسٹم ڈیوٹی کی رعایت کو کم کر دیا گیا ہے، گاڑیوں کے مقامی  مینوفیکچرز کی حوصلہ افزائی کے لیے  جو  اٹو پارٹس  مقامی تیار ہوتے ہیں ان جیسے آٹو پارٹس کے درامد پر  ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی لگا دی گئی ہے،  موبائل فون پر معمول کے ریٹ سے18فی صد کا جی ایس ٹی لگا لگا دیا گیا ہے لیدر اور ٹیکسٹائل پروڈکٹس فروخت کرنے والے پی او ایس  سٹورز پر جی ایس ٹی کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دی گئی ہے، سکریپ  پر ٹیکس کا  استثنی دے دیا گیا ہے ، ،فاٹا اور پاٹاکے لیے ایگزیمپشنز میں  مرحلہ وار کمی کی جائے گی ، غیرمنقولہ جائیداد  کی فروخت اور خریداری کو فایلرز ، لیٹ فائلرزز اور نان فائلرز میں تقسیم کر دیا گیا ہے،  فائلرزکی طرف سے جائیداد کی خریداری پر جس کی مالیت 50 ملین روپے تک ہو تین فیصد ٹیکس لگے گا، 50  ملین  سے 100 ملین تک کی جائیداد خریدنے  3.5  فیصد، اور 100 ملین زائد کی پراپرٹی خریدنے پر چار فیصد ٹیکس لگے گا،  لیٹ فائلرز اور نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرحوں کو بڑھا دیا گیا ہے، لیٹ فائلرز کے لیے یہ شرطیں بالترتیب چھ فیصد سات فیصد اور اٹھ فیصد ہوں گی، نان فائلرز کے لیے  50 ملین کی جائیداد کی خریداری ا پر 12 فیصد، 50 سے 100 ملین تک کی جائیداد کی خریداری پر 16 فیصد اور 100 ملین سے زائد مالیت کی جائیداد خریدنے پر 20 فیصد ٹیکس لگے گا،، یکم جولائی 2024 کے بعد  خریدی کی جائیداد  کی فروخت پر 15 فیصد گین ٹیکس لگا دیا گیا ہے، جبکہ نان  فائنلز کے لیے ریٹ زیادہ کر دیا گیا ہے،  اس وقت سیکیورٹیز پر  15 فیصد ٹیکس لگتا ہے اور اگر سکورٹیز خریداری کے چھ سال بعد فروخت کی جائیں تو ان پر کوئی ٹیکس نہیں ہے، تاہم  یکم جولائی 2024 کے بعد خریدی جانے والی سکیورٹیز پر فایلززپر 15  ٹیکس لگے گا جبکہ نان فائلرز کے لیے کم از کم ٹیکس 45 فی صد  ہوگا ، برامد کندگان کے لیے ٹیکس کی رعایتی شرحوں  کو ختم کر کے انہیں معمول کے ٹیکس رجیم  میں  شامل کر دیا گیا ہے،، ہول  سیلرز ، ڈسٹری نیوٹرز  سے ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، تاجروں میں ڈاکومنٹیشن کی حوصلہ افزائی کے لیے تمام کاروباروں کی پوری سپلائی چین کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کے ر  بڑھا دیا گیا اور نان فائلرز کے لیے ایڈوانس ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 2.25 فیصد کر دی گئی ہے، موٹر گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی، انجن کی طاقت کی بجائے گاڑی کی قیمت کی بنیاد پر کر دی گئی ہے، موجود و قانون کے تحت 2000 سی سی تک کی گاڑیوں کی خریداری اور رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی انجن کی طاقت کی بنیاد پر کی جاتی ہے گاڑیوں کی قیمت  میں اضافہ ہو گیا ہے ، اس لیے گاڑیوں پر  ایڈوانس ٹیکس کی وصولی ان کی اصل قیمت کی بنیاد پر ہوگی، ٹیکسٹائل اور چمڑے  کی مصنوعات کے ٹیر ون کے ڈیٹیلرز پر جی ایس ٹی 15 سے 18 فیصد کر دیا گیا، موبائل فون پر جی ایس ٹی کی مختلف شرحیں  ختم کرتے ہوئے سب پر 18 فیصد کے حساب سے جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے،  تاہم مہنگے موبائل فونوں پر جی ایس ٹی کا ریٹ 25 فیصد برقرار رہے گا، تانبے کاغذ اور پلاسٹک کے سکریپ کا کام کرنے والوں پر سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ نافذ کر دیا گیا ہے، فاٹا اور فاٹا کے رہائشیوں کو انکم ٹیکس کی چھوٹ کی میں معیاد میں ایک سال کی  توسیع کر دی گئی ہے، جھینگوں کو اور مچھلیوں کی فارمنگ کی  فروخت  اور  ان کی افزائش کے لیے منگوائی  جانے والے  سیڈز فیڈ کی درآمد کے ساتھ ساتھ فارمنگ بریڈنگ اور فیڈ مل اور پراسیسنگ یونٹس کی درآمد پر  ڈیوٹی کی رعایت دے دی گئی ہے ۔ہائبرڈ اور لگژری الیکٹرک گاڑیوں کی درامد پر دی جانے والی رعایت ختم  کر دی گئی ،انجن کی استعداد کے کے مطابق ٹیکس وصول کیا جائے  گا ،فنانس بل میں پیٹرولیم مصنوعات پر فی لیٹر لیوی20روپے تک بڑھانے کی تجویز ہے ،جس فنانس بل میں پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل پر لیوی 60سے بڑھا کر 80روپے فی لیٹر جبکہ لائیٹ ڈیزل پر لیوی 50سے بڑھا کر75روپے فی لیٹر کرنے ہائی آکٹین اور ای ٹن گیسولین پر لیوی 50سے بڑھا کر 75جبکہ مٹی کے تیل پر لیوی کو 50روپے فی لیٹر تک رکھا گیا ہے، پٹرولیم لیوی کی اضافی شرحوں کے نفاذ  کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بڑھانا پڑے گا۔

مزیدخبریں