صوبہ پنجاب اور وفاق کے درمیان متعدد ایشوز پر محاذ آرائی چلتی رہتی ہے تاہم پنجاب حکومت کے حکم امتناعی پرہونے یا نہ ہونے کا معاملہ سپریم کورٹ نے واضح کرکے اس محاذ آرائی کو انجام تک پہنچا دیا ہے۔

پچیس فروری دو ہزار نو کو لاہور ہائیکورٹ نے شریف برادران کو نااہل قرار دینے کے احکامات جاری کیے جس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے اکتیس مارچ دو ہزار نو کو میاں برادران کو عبوری ریلیف فراہم کیا جس کے بعد چھبیس مئی دو ہزار نو کو لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔ پنجاب حکومت کے حکم امتناعی پر ہونے کے حوالے سے پیپلزپارٹی کئی ماہ شور مچاتی رہی۔ اس معاملے پر وفاقی وزیر بابر اعوان اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد نے بھی پنجاب حکومت پر متعدد بیانات داغے۔ پنجاب حکومت کے حکم امتناعی پر ہونے کے بیانات نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ ان بیانات پر بالآخر سپریم کورٹ کو ہی نوٹس لینا پڑا، حج کرپشن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خواجہ حارث کوہدایت کی کہ وہ رجسٹرار کے پاس جاکرعدالتی ریکارڈکوچیک کریں۔ اگر عدالت کا کوئی ایساحکم ہے جس کے مطابق پنجاب حکومت حکم امتناعی پرچل رہی ہے توبتائیں ہم اس کیس کی چودہ مارچ کوسماعت کرنے کوتیارہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خواجہ حارث نے کہاکہ عدالت کاایساکوئی حکم امتناعی نہیں ہے اور اس بارے میں غلط بیانی کی جارہی ہے۔ جسٹس جاویداقبال نے کہاکہ بے بنیادالزامات لگا کر عدالت کوبدنام نہ کیاجائے۔ اگر ایساکوئی حکم امتناعی نہیں توایسا کیوں کہا جارہا ہے۔ پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے ایسے الزامات لگاکر توہین عدالت کی جارہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن