چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی ميں سپريم کورٹ کے تين رکنی بینچ نے اسٹيل ملز کرپشن کيس کی سماعت کی۔ملز کے وکيل فخرالدين جی ابراہيم نے ادارے کے بارے ميں فرانزک رپورٹ پيش کی جس کے مطابق اسٹيل ملز کو دوہزار آٹھ اور نوکے دوران ساڑھے چھبیس ارب روپے کا نقصان ہوا۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس میں سے کتنی رقم کرپشن کی نذر ہوئی۔ فخرالدین جی ابراہیم نے بتایا کہ کرپشن سے دس ارب کا نقصان ہوا، گیاہ ارب کا نقصان بدانتظامی اورچار ارب چالیس کروڑروپے کا لاسز سے ہوا. فخرالدين جی ابراہم نے عدالت کو بتايا کہ سابق چيئرمين اسٹیل ملز گرفتار ہوئے تو بيمار بن کر ہسپتال چلے گئے اور ايک دن بھی جيل ميں نہيں گزارا، جن ديگر افراد کے خلاف ايف آئی آر درج ہوئی وہ بھی ضمانت پر رہا ہيں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹيل ملز کا روزانہ نقصان چار کروڑ جبکہ ماہانہ ایک ارب بیس کروڑ روپے ہے، کرپشن کی تحقيقات کيلئے فرانزک ماہرين کو تین کروڑ روپے دیئے گئے. اس موقع پر چيف جسٹس نے ريمارکس ديئے کہ اسٹيل ملزکو پہلے بھی نجکاری سے بچايا، پوری ملز لوٹ لی گئی، کيس نيب کو بھيج ديتے ہيں. عدالت ميں موجود سيکرٹری صنعت نے کہاکہ ايسا ہوا تو وزارت کے ملوث افراد بھی بے نقاب ہوں گے۔ فخرالدين جی ابراہيم نے کہاکہ پندرہ ایف آئی آر درج کی گئیں جبکہ چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیے بغیر تحقیقات جاری ہیں۔ کيس نيب کو بھيج ديں تو ہمارا کچھ پيسہ ہی بچ جائے گا. جسٹس طارق پرويز نے ريمارکس ديئے کہ اب بھی ملز ميں وہی لوگ بيٹھے ہيں جو پہلے ملوث تھے، چوکيدار ہی لوٹنے پر لگا ہوا ہے. جسٹس خلجی عارف حسین نے ريمارکس ديئے کہ پوری دنیا کو پتا ہے کہ اسٹیل ملزمیں کرپشن ہورہی ہے، سوائے نیب کے۔ چيف جسٹس نے سيکرٹری صنعت سے کہا کہ کرپشن ميں بڑے بڑے ملوث ہيں، آپ ان پر ہاتھ نہيں ڈال سکتے، آپ نے تو نوکری کرنا ہے۔ فرانزک رپورٹ چھ ماہ سےوزارت کے پاس پڑی ہے ، اس عرصہ ميں کيا ہوا؟ عدالت نے قرار ديا کہ بادی النظر ميں ملز کو نقصان بدعنوانی اور بد انتظامی سے ہوا، فرانزک رپورٹ ایک سال کی ہے ، نہ جانے ملزکو کل کتنا نقصان ہوچکا ہے۔عدالت نے فرانزک رپورٹ پر سيکرٹری صنعت سے دو روز ميں وضاحت طلب کرتے ہوئے سماعت پندرہ مارچ تک ملتوی کردی۔