”اس کے بعد آئے جو عذاب آئے“

یہ ساری سبیلیں تو دھن دھونس دھاندلی کے کلچر کو فروغ دینے والے فرسودہ انتخابی نظام کو جپّھا مار کر اپنے پاﺅں پر کھڑا رکھنے والی ہیں اور اس نظام کے تابع سلطانی¿ جمہور کی بساط اب صرف دو دن کی باقی رہ گئی ہے تو کیسے کہئے ”انقلابیوں“ کے اصل چہرے بے نقاب ہورہے ہیں۔ ارے، یہ اندر سے تو سارے ایک ہیں، سب ”رَلے ملے“ ہیں، سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور سب کی یہی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح خلق خدا کے راج کی نوبت نہ آنے پائے۔ سلطانی¿ جمہور کے مفہوم میں فی الواقع سلطانی کہیں مفلوج نہ ہوجائے اسلئے پارٹی منشوروں پر عوامی فلاح و بہبود کا ٹھپہ لگا کر ”دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا“
عمل کیا ہے؟ راندہ¿ درگاہ عوام کا راستہ روکو، ایوان اقتدار کی راہداریوں میں انہیں بھٹکنے کا موقع بھی فراہم نہ ہونے دو کہ کہیں یہ بھٹکتے، ٹامک ٹوئیاں مارتے اپنے لئے مستقل بند اقتداری دروازے کیلئے ”کھل جا سم سم“ کی نوبت نہ لے آئیں۔
گزشتہ کالم میں، میں نے مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور اور اسکے عام آدمی کی انتخابات میں حصہ لینے کی نااہلیت کو یقینی بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا تو کئی مہربانوں کی جبینِ نیاز شکن آلود نظر آئی۔ آج تمام انتخابی جماعتوں کی پارٹی ٹکٹوں کے اجراءکی پالیسیوں کا جائزہ لینے بیٹھا ہوں تو سارے ”شفاف“ چہرے دیکھ کر آئینہ ہی گدلا نظر آیا ہے۔ پھر جناب، آئینہ توڑنے سے تو بات نہیں بنے گی کیونکہ ہر آئینے کے روبرو یہ ”شفاف“ چہرے اپنی وحشت ناکیاں چھپانے والا ایکا کرکے آئینے کو ہی گدلا دکھاتے رہیں گے۔ یہ بندربانٹ ایکا راندہ¿ درگاہ عوام کے انتخابی عمل کا حصہ بننے کے خواب چکنا چور کرنے کا اہتمام کررہا ہے تو صاف اور شفاف انتخابات کیلئے پرعزم الیکشن کمشن کے پیچھے بھی لٹھ لیکر پڑا نظر آتا ہے۔ اگر علامہ کینیڈی کے علاوہ سونامی خاں، اہل قاف حتیٰ کہ ٹِٹ بٹ عوامی مسلم لیگی شیخ رشید کو بھی الیکشن کمشن کی شکل اور ہیئت ترکیبی اچھی نظر نہیں آ رہی تو تصور کرلیجئے کہ ”سٹیٹس کو“ والوں کو کہاں کہاں سے تقویت حاصل ہورہی ہے۔ اقتداری قلعے میں اپنی اپنی ”باریاں“ لگانے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں کو تو ویسے ہی آزاد و خودمختار الیکشن کمشن ہضم نہیں ہوا اسلئے ”سٹیٹس کو“ توڑنے کی راہ دکھانے والی الیکشن کمشن کی انتخابی اصلاحات کو قانون کے قالب میں ڈھالنے کی نوبت نہ آنے دینا ان دونوں جماعتوں نے اپنے غیرتحریری منشور کا حصہ بنالیا ہے اور آپس میں ہتھ جوڑی بھی کرلی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے الیکشن کمشن کی جانب سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں کی گئی ترامیم کی صدر کے دستخطوں کے ساتھ منظوری کی نوبت نہ آنے دینے کی ٹھانی تو الیکشن کمشن کے مرتب کردہ انتخابی اصلاحات کے بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کی نوبت نہ آنے دینے کا عزم مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر باندھا۔ دکھاوے کے طور پر قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں سے یہ بل متفقہ طور پر منظور کرالیاگیا ہے مگر اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے سے پہلے پہلے یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہی نہ ہوپایا تو آج سے دو روز بعد اسمبلیاں تحلیل ہونے سے اس بل کی حیثیت ردی کاغذ کے ایک ٹکڑے کی رہ جائیگی۔
الیکشن کمشن نے تو کاغذات نامزدگی میں ترمیم اور انتخابی اصلاحات کے بل کے ذریعے سارے بدکرداروں، تمام چوروں، ڈاکوﺅں، لٹیروں اور اس وطنِ عزیز کی سرزمین کے ساتھ اپنی حب الوطنی کا ناطہ توڑنے والوں کیلئے انتخابی میدان میں اترنے کے راستے بند کرنے کا پورا اہتمام کیا مگر عوام کو ایسی ہی انتخابی اصلاحات کا چکمہ دینے والے جغادری سیاستدانوں اور سیاست کا ملغوبہ تیار کرنیوالے مذہبی شعبدہ بازوں نے الیکشن کمشن کے کان مروڑ کر انہیں حقیقی سلطانی¿ جمہور کی راہ ہموار کرنے سے روکنے کی ٹھان کر کیا خود کو ”سٹیٹس کو“ والوں کا حامی و مددگار نہیں ٹھہرایا؟ بھئی تاریخ تو ہر چہرے کو اسکے اصل رنگ میں ہی محفوظ کررہی ہے اسلئے میری جان، بچ کے کہاں جاﺅ گے
یہیں پہ اٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ یومِ حساب ہوگا
اس حساب کتاب میں چلتے چلتے خدمتِ عوام کے دعویداروں کی پارٹی ٹکٹوں والی بندربانٹ والی حکمت عملی ملاحظہ فرمالیجئے۔ آنیوالے مو¿رخ کی مدد کیلئے پرنٹ میڈیا نے تو اپنے صفحات میں خدمتِ عوام کے لیبل میں لپٹی ان چالبازیوں کو محفوظ کرلیا ہے تاکہ ”سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے“۔ مسلم لیگ (ن) کی پارٹی ٹکٹوں کے اجراءکی پالیسی کا میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تذکرہ کردیا تھا جبکہ عوام کی پارٹی ہونے کی دعویدار پیپلز پارٹی ہی نہیں، عوام کی ترجمانی کے خودساختہ چیمپئن شیخ رشید بھی عوام کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کے مکروفریب میں ان دونوں پارٹیوں کے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں پر فی نشست قومی اسمبلی کیلئے 50 ہزار اور صوبائی اسمبلی کیلئے 30 ہزار روپے بطور ناقابل واپسی زرضمانت جمع کرانے کی پابندی عائد کی تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) نے فی ٹکٹ قومی اسمبلی کیلئے 40 ہزار اور صوبائی اسمبلی کیلئے 30 ہزار روپے زرضمانت جمع کرانا لازمی ٹھہرایا ہے۔ اس کاروباری سیاست میں لال حویلی والے شیخ رشید نے بھی ڈبکیاں لگاتے ہوئے اپنی پارٹی ٹکٹوں کو نیلام گھر میں سجا کر انکے زرضمانت کے نرخ قومی اسمبلی کیلئے فی ٹکٹ 5 ہزار اور صوبائی اسمبلی کیلئے فی ٹکٹ 3 ہزار روپے مقرر کردئیے ہیں اور یہ نرخ باقاعدہ اخبار اشتہار کے ذریعے مقرر کئے گئے ہیں۔
یہ حقیقت جان کر بھی کہ انکی پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے مفاداتی کلچر کے نگہبان اشرافیاﺅں میں سے بھلا کس نے خطرہ مول لینا ہے، انہوں نے عام آدمی پر تو اپنے پارٹی ٹکٹ کی دھاک بٹھا دی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتیں تو پارٹی ٹکٹ کے اہل قرار پانیوالے امیدواروں سے پارٹی فنڈ کے طور پر کروڑوں روپے وصولنے کے ”زرّیں اصول“ بھی طے کئے بیٹھی ہیں جس سے ان دونوں پارٹیوں کی قیادتوں کو اس منفعت بخش کاروبارِ سیاست میں بیٹھے بٹھائے اربوں روپے کا نقد منافع حاصل ہوجائیگا مگر اپنا مقدر بدلنے کا تمنائی عام آدمی تو اپنے لئے لال حویلی کے عوامی دھکے دھوڑوں کی زد میں بھی آ گیا ہے۔ تو جناب، اب یہی ایک امید کی کرن باقی رہ گئی ہے کہ جیسے تیسے جسٹس فخرو بھائی کو اپنے عزم و یقین کے مطابق صاف شفاف انتخابات کرانے کا موقع مل جائے۔ یہی راندہ¿ درگاہ عوام کی راحت کا مقام ہوگا، اسلئے الیکشن کمشن کے ذریعے
آئے کچھ ابر کچھ ”شراب“ آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...