عوام سے گزارش ہے کہ ووٹ اس جماعت کو دیںجو غریب اور یتیم سرکاری سکولوں کو ملک کا اہم مسئلہ سمجھے اورسرکاری درسگاہوں کو پرائیویٹ کرنے کا منصوبہ پیش کرے۔دانش سکولوں کے ماڈل اور تجربے پیش کرنے کی بجائے سرکاری سکولوں کو دانش سکول بنانے کا پروگرام پیش کرے۔ مسلم لیگ نون نے اپنا انتخابی منشور پیش کیا مگر اس میں سرکاری سکولوں کے مسائل کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ ہر صوبے میں دانش سکول بنانے کا عہد تو کیا مگر پہلے سے تعمیر شدہ سرکاری سکولوں کی تشویشناک صورتحال کا ذکر (گول)کر گئے۔اگر تمام صوبوں میں دانش سکول بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سرکاری سکولوں کو قبرستان قرار دے دیا جائے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری نے ایک سرکاری سکول کا نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ” قبرستان کا سکول دانش سکول میں تبدیل کیا جائے ورنہ تمام دانش سکول بند کر دیں گے“۔
پاکستان میں سانحات کی وجہ سے اموات میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہاہے ، قبرستان کم پڑ جائیں گے لہذاسرکاری سکولوں کے کھنڈرات کو قبرستان کے لئے وقف کرنے کا اعلان بھی منشور میں شامل کیا جائے۔سیاسی لیڈران امیر زادے ہیں ،انگریزی درسگاہوں سے فارغ التحصیل سرکاری سکولوں کا درد کیوں کر محسوس کر سکتے ہیں۔عمران خان کے بیٹے اور شریف برادران کے پوتے اور نواسے اردو میڈیم سرکاری سکول میں جاتے ہوئے کیسے لگیں گے؟ سرکاری سکولوں کازوال بھٹو دور سے شروع ہوا۔نجی سکول جب سرکاری تحویل میں لئے گئے تو نظام تعلیم کا جنازہ نکل گیا۔ بھٹو کے اس فیصلے سے پاکستان کی نسلیں معیاری تعلیم سے محروم ہو گئیں جبکہ ان کی اپنی اولاد مغرب میںزیر تعلیم تھی ۔ بھٹو صاحب اپنے بچوں کو بھی سرکاری سکول میں داخل کراتے جہاں نہ پینے کو صاف پانی ہے ،نہ لیٹرین ہیں،نہ پنکھا ،نہ کرسی نہ بینچ حتیٰ کہ ٹیچرز تک میسر نہیںاور جو ٹیچرز میسر ہیں وہ بھی زمانہ قدیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے منشور کے مطابق ان کی پارٹی برسر اقتدار آئی تو پاکستان کے حالات میں بہتری آئے گی۔پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ ہوگا اور عوام کو ریلیف ملے گا۔ منشور میں تمام شعبوں کے مسائل اور ان کے حل کا ذکر ہے ، شعبہ تعلیم کا بھی ذکر ہے جس کے مطابق ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کریں گے ۔نصاب کو عالمی سطح سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔اساتذہ کے سروس سٹرکچر کی اصلاح کی جائے گی ۔اساتذہ کی تربیت کے خصوصی پروگرامز کا آغاز کیا جائے گا۔تعلیمی ایمرجنسی کے ذریعے ناخواندگی کا خاتمہ کیا جائے گا۔تمام صوبوں میں دانش سکول قائم کئے جائیں گے اور ہونہار طلبہ و طالبات کو لیپ ٹاپ دئے جائیں گے۔ہر صوبے میں بین الاقوامی معیار کی ٹیکنالوجی یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔دینی مدارس کے نصاب کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔تعلیم کے لئے وسائل کو جی ڈی پی کے چار فیصد تک لے جایا جائے گا۔۔۔مگر سرکاری سکولوں کے مسائل کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ تعلیمی نصاب میں رد و بدل کی سب کو فکر ہے مگر نصاب پڑھانے والوں کی گرفت کون کرے گا؟ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی معیار کو سر فہرست رکھا جاتا ہے۔امریکہ میںتدریس کے لئے ایک امتحان پاس کرکے لائسنس حاصل کرنا پڑتا ہے جس کے بعد ہی ایک ٹیچر سرٹیفائڈ کہلاتا ہے اور کسی سکول میں معلم بننے کے لئے مقابلے کے امتحان میں شامل ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان میں سرکاری سکول وہاں کے سیاسی نمائندے چلاتے ہیں۔پرائمری سطح پر تعلیم کو اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر دیکھتے ہیں جو مقامی سطح پر اسمبلی کے رکن ہوتے ہیں اور جو سکول کی انتظامیہ کو قابلیت اور تجربے کی بنیاد پرنہیں بلکہ سیاسی بنیاد پر تعینات کرتے ہیں۔سیاستدانوں کے ماتحت علاقوں کے سکول من پسند انتظامیہ کی زیر نگرانی ہوتے ہیں ۔جن اساتذہ کے سر پرکسی سیاستدان کا ہاتھ ہے ،ان کا احتساب کرنے والا ابھی کوئی پیدا نہیں ہوا۔گذشتہ کئی حکومتیں سرکاری سکولوں کی حالت اور نظام تعلیم کی بہتری کے اعلانات کر چکی ہے مگر ان کے جیالے ور متوالے اپنی مرضی کا سٹاف بھرتی کرتے ہیں اور مفادات کی بنیاد پر تبادلے اور تقرریاں کرتے ہیں۔امریکہ میں متعلقہ ریگولیٹری اتھارٹی کی پیشگی اجازت کے بغیر کچھ ممکن نہیں ۔اس ملک کے ٹیچرز کی ترقی اور تنخواہ میںاضافہ کا دارومدارمدت ملازت نہیں بلکہ ٹیچرز کی اعلیٰ کارکردگی ہے۔ سکول میں ٹیچرز کی حاضری ، امتحانی نتائج اورشاگردوں کے ساتھ رویہ کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔نون لیگ کے منشور میں نظام تعلیم کو سیاست سے پاک کرنے کا وعدہ نہیں کیا گیا۔ امریکہ میں سیاست صرف ایوانوںتک محدود ہے جبکہ پاکستان میں سیاستدان مضبوط اور آزاد اداروں کے قائل نہیں۔پاکستان کے اساتذہ کے دو ہی مطالبات ہیں،تنخواہ میں اضافہ اور چھٹیوں میں اضافہ۔نون لیگ نے ٹیچرز کی۔ تربیت کا پروگرام تو پیش کیا مگر ٹیچرز کے تبادلے اور ترقیاں میرٹ پر کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی ۔پاکستان کو نئے دانش سکولوں کی نہیں بلکہ پرانے سرکاری سکولوں کودانش سکول بنانے کی ضرورت ہے۔ لاکھوں والدین ہیں جو سرکاری سکولوں میں پیش آنے والی ذلت کے ہاتھوں اپنے بچوں کو مذہبی مدارس میں داخل کرا دیتے ہیں کہ وہاں ان کے بچوں کو دینی تعلیم ، کھانا اور صاف پانی ملے گا۔ امیروں کو نہ دینی مدارس برداشت ہیں اور نہ ہی سرکاری سکولوں کو ”دانشمند“ بنانے میں دلچسپی ہے۔ سیاستدان نیک نیتی اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں تو سرکاری سکولوں کو معیاری بنایاجا سکتا ہے۔ جو مسئلہ ٹی وی چینلز پر ہائی لائٹ کر دیا جائے، سیاستدان فوری طور پر ایکشن لیتے ہیں ۔ لعنت ہے ایسی سیاست پر جو محض اقتدارکے لئے کی جائے۔پنجاب حکومت نے تعلیم کے لئے اہم اقدامات اٹھائے مگر دیہی علاقوںمیں سرکاری سکولوںکی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ نہ کوالیفائڈ ٹیچرز ہیں اور نہ ہی ان پر چیک رکھا جاتاہے۔نون لیگ جب تک ملک بھر کے سرکاری سکولوں کو دانش سکول بنانے اور کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا وعدہ نہیں کرتی،دانشمندعوام انہیں ووٹ نہیں دےں گے۔انتہائی بے حس ہیں وہ ٹیچرز اور سکول سٹاف جو گھر بیٹھے تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں اورسکول فنڈز میں کرپشن کرتے ہیں ۔جن سرکاری سکولوں کو عمارت اور بنیادی سہولیات میسرہیں ،ان کے پاس مکمل سٹاف موجود نہیں جبکہ سرکاری ریکارڈ میں سٹاف بھی مکمل ہوتا ہے اور تنخواہیںبھی باقاعدگی کے ساتھ وصول کی جاتی ہیں۔عوام کو چاہئے کہ ووٹ دینے سے پہلے اپنے علاقے کے سرکاری سکولوں کی حالت کا تفصیلی جائزہ لیں۔ سرکاری سکولوں میں معیار ی تعلیم اور سہولیات میسر نہیں تواس علاقے کے سیاستدان کو ہر گز ووٹ نہ دیں۔