چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بادامی باغ ازخود نوٹس کی سماعت کی،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اشتراوصاف نے گوجرہ واقعہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گوجرہ واقعے میں آپ نےکیا اقدامات اٹھائے،جس پرایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ امن کمیٹیاں تشکیل دے دی تھیں،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بادامی باغ واقعے کے وقت یہ کمیٹیاں کہاں تھیں،ڈی سی او کہاں تھا،ان کا کہنا تھا کہ بادامی باغ واقعے کو روکنے کیلئے بہت وقت تھا،لوگوں کی زندگی کی حفاظت کون کرے گا،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے پنجاب پولیس کی تاریخ ہی خراب ہے،لگتا ہے اب لوگوں کے جان و مال کی حفاظت بھی عدالت ہی کرے گی، ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ سانحہ گوجرہ کے بعد سفارشات متعلقہ حکام کو بجھوا دی تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا تو اب تک عملدرآمد کیوں نہیں ہوا،جس پرایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا کہ پولیس اور محکمہ داخلہ پنجاب کے درمیان کچھ اختلافات ہیں،،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا ہی واقعہ ماضی میں گوجرہ میں ہوا تھا،اب بادامی باغ میں دوسرا واقعہ ہوگیا، یہ حکومتوں کی ناکامیاں ہیں ،بظاہر ثابت ہو گیا ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی بھی کوشش نہیں کی گئی، سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی سانحہ بادامی باغ پر رپورٹ مسترد کرکے اٹھارہ مارچ کو جامع رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیا .