وزیراعظم کا دورہ¿ تھرپارکر: دیر آید درست آید

Mar 13, 2014

رانا عبدالباقی

تھرپارکر میں قحط کی صورتحال پر سندھ حکومت کی مایوس کن کارکردگی ، پنجاب حکومت کی امداد قبول نہ کرنےکا ناقابل فہم اعلان اور پھر وزیراعلیٰ سندھ کا یہ بیان کہ قحط ایک قدرتی اَمر ہے البتہ حکومت سندھ نے تھرمیں گندم بھجوائی تھی لیکن تقسیم میں کوتاہی ہوئی ہے عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سندھ کے وڈیروں کے بادشاہ ہیں سندھ کی ثقافت کی تقریبات پر کروڑوں روپے کے اخراجات کرتے وقت وہ بھول گئے کہ قحط زدہ علاقوں سے نقل مکانی جاری ہے، بھوک افلاس اور بیماری کے سبب سینکڑوں بچے موت کی نیند سو چکے ہیں، چرند ، پرند اور مویشی جو تھر کے عوام کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں چارہ نہ ہونے کے باعث یا تو ختم ہوتے جا رہے ہیں اور یا پھر دولت کے پجاری بیوپاریوں کے ہاتھوں کوڑیوں کے مول فروخت ہو رہے ہیں جس کا بروقت نوٹس لیا جانا چاہئیے تھا ۔ سندھ کے سیاسی اکابرین کو سندھی ثقافت کی تقریبات مناتے وقت اِس اَمر کا احساس بھی کرنا چاہئیے تھا کہ سندھ کی ثقافت کو تھرپارکر کے دانشوروں نے ہی دوام بخشا ہے جن کی نئی نسلیں گذشتہ چند ماہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کسی مسیحا کی منتظر تھیں ۔ بہرحال سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف کا تھرپارکر کا دورہ تھر کے مفلوک الحال لوگوں کےلئے تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف تھا۔ وزیراعظم کی جانب سے ایک ارب روپے کی امداد کا بروقت اعلان خوش آئند ہے جسے بہرحال دیر آید درست آید ہی کہا جائیگا ۔ یہ اَمر بھی باعث اطمینان ہے کہ وزیراعظم کے تھرپارکر کے دورے سے قبل پاکستان فوج کی جانب سے تیز رفتاری سے تھر کے قحط زدہ علاقوں میں طبی سہولت اور غذائی ریلیف فراہم کرنے والی ٹیموں نے قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ سندھ کی سیاسی انتظامیہ کے جاگنے کےساتھ ہی پنجاب، بلوچستان اور خیبر پی کے ،کی جانب سے امدادی قافلوں کی تھرپارکر روانگی اور پھر ملک کی معروف رفاہی شخصیت ریاض ملک کی امدادی ٹیم کی تھر میں آمد اور قحط سے متاثرہ علاقوں میں بحریہ کے دسترخوان کا قیام بھی باعث اطمینان ہے جس سے تھرپارکر کے شہریوں میں یقینا اِس احساس کو جِلا ملی ہے کہ مقامی انتظامیہ کی کوتاہیوں کے باوجود تھرپارکرکے باشندے دکھ کی اِس گھڑی میں تنہا نہیں ہیں ۔
 دراصل تھر کا علاقہ برّصغیر جنوبی ایشیا کے ایک بڑے ریگستانی خطے کا اہم حصہ ہے جو پاکستان میں نگرپارکر سے چولستان تک اور سرحد پار بھارت کے علاقے میں ہریانہ سے لیکر راجھستان تک پھیلا ہوا ہے۔ تاریخ میں اِس علاقے کو مکڑا تہذیب (Makra Civilization) کے مرکز کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جہاں کی زمین زرخیز تھی ،خوشحالی تھی اور جہاں سے کبھی دریائے گھاگھراکا گزر ہوتا تھا جس کا تذکرہ تھر کی لوک کہانیوں اور گیتوں میں بخوبی ملتا ہے۔یہ دریا چھ سو قبل مسیح میں یا تو خشک ہو گیا یا پھر اپنا رخ تبدیل کر کے دریائے سندھ میںشامل ہوگیا اور اِس طرح سے یہ علاقہ ایک بڑے ریگستان میں تبدیل ہوگیا۔ ماضی میں اِس علاقے کی بیشتر آبادی سندھ کے زرخیز علاقوں کی طرف نقل مکانی کرگئی تھی لیکن کچھ آبادی جن میں سندھ کے اصل باشندے ڈاویڈین جنہیں آریا ہندو سماج نے ماضی میں شکست دے کر اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا نے مشکلات کے باوجود اِس خطے کو نہیں چھوڑا تھا ، آج بھی تھرپارکر کی چالیس فی صد آبادی محب وطن ہندو ﺅں پر مثتمل ہے جن میں ہندو راجپوت ، میگوار، ڈراویڈین ، اور چھوٹی ذات کے ہندو شامل ہیں ۔ یہ درست ہے کہ تھر کی عوام نے کم و بیش قحط سالی کےساتھ جینا سیکھ لیا ہے لیکن یہ قحط سالی ہر سال نہیں آتی ۔ تھر کی معیشت کا دارومدار مون سون بارشوں سے جُڑا ہوا ہے ۔ جولائی سے ستمبر تک مون سون بارشیں آتی ہیں تو تھر کا ریگستان خوبصورتی کی چادر اُوڑھ لیتا ہے ۔ چاروں اطراف بڑی بڑی جھیلیں بن جاتی ہیں، جنگل میں مور ناچتے ہیں، شہد کی مکھیاں جھاڑیوں پر اپنا تسلط قائم کر لیتی ہیں باجرہ کی فصل تقریباً دو ماہ میں تیار ہو جاتی ہے ہر سُو سبزیوں کی بہتات اور مویشیوں کےلئے چارے کی فراوانی ہوجاتی ہے ۔ اچھی مون سون کے سبب کنوﺅں میں سارا سال پانی کی آمد رہتی ہے ۔تھر کے تقریباً ستر فی صد باشندوں کی آمدنی کا دارومدار مون سون کی بارشوں سے جُڑی زراعت ، لائیو سٹاک ، اور روزمرہ مزدوری پر ہوتا ہے لیکن ہر عشرے میں ایک دو برس ضرور ایسے آتے ہیں جب مون سون بارشیں توقعات سے بہت کم ہوتی ہیں اور یہی وقت تھر کے باشندوں کےلئے کڑے امتحان کا سبب بن جاتا ہے ۔
 قحط سالی کے پیش نظر مقامی انتظامیہ کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ متاثرہ لوگوں کےلئے سافٹ قرضوں اور غذائی اجناس کی فراہمی کےساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں خصوصی ہیلتھ سنٹرز قائم کرے اور وائرل بیماریوں سے متاثر ہونے والے افراد میں علاج معالجے کی فراہمی کو ممکن بنائیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب کے برس نہ صرف متاثرہ علاقوں میں غذائی اجناس کی تقسیم میں غفلت برتی گئی ہے بلکہ مناسب طبی سہولتیں نہ ہونے کے باعث تھر کے بیشتر دیہات میں عورتوں اور مردوں کے علاوہ سینکڑوں بچوں کو بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے ۔ گو کہ تھری عوام کی مشکلات دور کرنے کےلئے بہبود کے کچھ نجی ادارے بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن بروقت ریاستی اقدامات کے بغیر قحط زدہ علاقوں میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا۔ اندریں حالات، ہمارے ارباب اختیار کو اِس اَمر کو پیش نظر رکھنا چاہئیے کہ تھرپارکر کا علاقہ قومی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کے اہم سرحدی علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں قحط کے دنوں میں عوامی مسائل کو حل کرنے کےلئے انتظامیہ کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہئیے۔ بہرحال وزیراعظم کے تھرپارکر کے موجودہ دورے کے باعث صورتحال میں واضح تبدیلی محسوس کی گئی ہے لیکن صوبائی انتظامیہ کی حالیہ کوتاہیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے علاقائی اہلکاروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کےلئے تھر کی امدادی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے چنانچہ وزیراعظم کی جانب سے مقامی شہری تنظیموں اور عسکری بہبود کے اہلکاروں پر مثتمل مانیٹر کمیٹی کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

مزیدخبریں