چھٹی پاکستان فلور ملنگ کانفرنس۔ کامیاب عمل

پاکستان میں 19 کروڑ کی آبادی میں لوگ تین وقت گندم کی بنی ہوئی روٹی کو استعمال کرتے ہیں اور ایک تحقیق کے مطابق ایک عام صحت والا آدمی / عورت / بچہ سال بھر میں اوسطاً 136 کلوگرام آٹا کھاتا ہے۔
پاکستان میں آٹے کی ضروریات پوری کرنے کیلئے جہاں 16000 سے زائد چکیاں آٹا بنا رہی ہیں وہاں 1400 فلور ملز بھی ملک کے مختلف علاقوں میں یہ اہم فریضہ سرانجام دے رہی ہیں اور لوگوں کو معیاری آٹا فراہم کر کے غذائی تحفظ کے ایجنڈا میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ فلور ملنگ انڈسٹری ملک کی حجم یونٹس کے اعتبار سے سب سے بڑی انڈسٹری ہے مگر یہ علم صدیوں سے یہاں پر پسند بہ پسند چلا آ رہا ہے اور کسی قسم کی بھی ٹریننگ کیلئے یہاں پر کوئی ادارہ موجود نہیں جبکہ دنیا بھر میں آٹا بنانے کا عم اب جدید سے جدید تر مشینری اور طریقوں پر کیا جاتا ہے۔ راقم الحروف نے 2006ء میں اس علم و ہنر سے آگاہی کا سلسلہ پاکستان فلور ملنگ کانفرنس کے ذریعہ شروع کیا اور آج چھٹی کانفرنس لاہور میں بڑی کامیابی سے منعقد ہوئی جس میں ترکی اور امریکہ سے آئے ہوے مشینری بنانے والے اداروں نے بھی شرکت اور پاکستان سے بھر سے آئے ہوئے 150 سے زائد فلور ملز مالکان نے یہاں آ کر جدید تحقیق اور امور پر آگاہی حاصل کی ۔ کانفرنس کا موضوع ’’فلور ملز کی ماڈزئزیشن جدید رجحانات اور موجودہ چیلنجز تھا جس میں 12 ماہرین نے اپنے اپنے مقالہ جات پیش کئے۔
 کانفرنس کا افتتاح پنجاب کے وزیر خوراک بلال یاسین نے کیا۔ جنہوں نے راقم کی اس کوشش کو سراہا اور بتایا کہ پنجاب میں گندم کے وسیع ذخائر کو محفوظ بنانے کیلئے سائیلوز لگانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ سیکرٹری خوراک محمد اسلم کمبوہ نے کہا ہے کہ ایسی کانفرنسز کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے اور ڈاکٹر بال صوفی ہمیشہ انڈسٹری میں جدید تحقیق پر مبنی مشورے اور آراء اپنے ساتھ رکھ کر Share  بھی کرتے ہیں جس سے بہت سے ملکی اداروں کی رہنمائی ہوتی ہے اس موقع پر راقم نے حکومت کے نمائندوں کو بتایا کہ محکمہ خوراک کی ٹرانسپورٹیشن پالیسی کا از سر نو جائزہ لے کر آٹے کو سستا کیا جا سکتا ہے۔ محمد سعید مغل نے اپنا مقابلہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی طرف سے گندم کا نرخ 1200 روپے سے نہ بڑھانے کے باوجود بمپر کراپ کی صورت نظر آ رہی ہے۔ لیکن ایسی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے کسان کو کھاد نہ بیج اور ڈیزل وغیرہ میں سبسڈی دینا ہو گی۔ حمزہ بال نے اپنے مقابلہ میں ملک میں بڑھتی ہوئی فلور ملز کی تعداد کو غیر ضروری سرمایہ کاری قرار دیتے ہوئے تجویز دی کہ نئی فلور ملز کے قیام پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ اس وقت ملک میں تین لاکھ ٹن آٹا بنانے کی صلاحیت کی 140 فلور ملز ہیں۔ مدثر حسن نے بتایا کہ فلور ملز کو گندم کی سٹوریج کیلئے بوریوں کی شکل میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور پھر بوریوں والے مینوفیکچرز نے ہمیشہ محکمہ خوراک کو کارٹر بنا کر قیمت اور سپلائی دونوں کے معاملہ میں بلیک میل کیا ہے۔ واجد عبداللہ نے کہا کہ ملوں میں بے احتیاطی سے یا علم کے نہ ہونے سے اخراجات بڑھتے ہیں جنہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ احسن ریاض شیخ نے گلوٹین کے زیادہ یا کم ہونے ے بیکری مصنوعات کی کوالٹی پر اثر اندازی کا ذکر کیا اور بتایا کہ پاکستانی گندم کا گلوٹن دنیا میں سب سے اچھا ہے۔ امریکہ سے آئے ہوئے مندوب فرخ شہزاد نے جدید میلنگ کی تمام اشکال پر گہری روشنی ڈالی اور بتایا کہ میدے کی کوالٹی کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مقالہ جات والے سیشن کی صدارت لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر سہیل لاشاری نے کی۔ جنہوں نے اپنے خطاب میں بتایا کہ فلور ملنگ سکول کا قیام وقت کی بہترین ضررت ہے۔
 میاں طارق مصباح سینئر نائب صدر بھی اس موقع پر موجود تھے دوپہر کے اجلاس میں فلور ملز مالکان کو موقع دیا گیا کہ وہ ٹیکنیکل ملز کے ساتھ مل کر آٹے کی کواٹی اور دیگر امور کے بارے میں باہم گفتگو کریں۔ یہ سیشن انتہائی دلچسپ تھا اور نہ صرف ملز مالکان بلکہ ہوم اکنامکس کالج سے آئی ہوئی شعبہ نیوٹریشن کی طالبات نے بھی اس میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے سوالات کئے۔
 بدر رحمان نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر حضرات شوگر کے مریضوں کو برآئون آٹا تجویز کرتے ہیں مگر اس فلسفہ کے ناقدین بھی پیدا ہوگئے ہیں اور ان کے خیال میں برائون آٹے میں نشاستہ زیادہ ہوتا ہے۔ جس سے ڈاکٹر کے مقصد یعنی شوگر میں کمی نہیں ہوتی۔ کانفرنس کے اختتامی سیشن میں فلور نوٹیفکیشن ایک اہم معاشرتی ذمہ داری کے موضوع پر سیر حاصل مقالہ جات پیش کئے گئے۔ MI سے وابستہ ڈائریکٹر ڈاکٹر توصیف جنجوعہ نے بتایا کہ ان کا ادارہ پنجاب کیلئے اور دوسرے صوبوں کیلئے 5 سال پروگرام تشکیل دے رہا ہے جس سے آئرن کی کمی کو آٹے میں آئرن ڈالنے سے دور کیا جا سکے گا۔
 راقم نے تجویز دی کہ اگر فلور نوٹیفکیشن کے عمل کے ذریعے آٹے میں آئرن ملا کر ان کی خوراک کا حصہ بنایا جائے تو چند سالوں میں یہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ جس سے ملک کا جی ڈی پی ڈیڑھ سے 2 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اختتامی سیشن میں خلیق ارشد سابق چیئرمین پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن و سابق چیئرمین حضرات میاں ندیم ناصر‘ مجاہد خورشید اور طارق صادق نے کانفرنس کو کامیاب قرار دیا۔

ای پیپر دی نیشن