ایسے امیرِ شہر کو سنگسار کیجئے

اس مرتبہ پاکستان کی بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف شاندار کامیابی کے حوالے سے کالم لکھنے کا پختہ ارادہ تھا۔ لیکن اسی دوران دو ایسے دلخراش واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں جن سے صرف نظر کرنے کی نہ ضمیر اور نہ دل اجازت دیتا ہے۔پہلا واقعہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مزار کے احاطے کو غلط کاموں کیلئے کرائے پر دینے کے حوالے سے ہے جس سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں کیا ہم پستی اور ذلت کی ان حدوں کو چُھو رہے ہیں کہ جس عظیم شخصیت نے ہمیں ایک آزاد ملک اور سر اُٹھا کر جینے کا سلیقہ اور قرینہ دیا اُس کے مزار کا احاطہ اب ایسی سرگرمیوں کیلئے استعمال ہوگا؟ چند ماہ قبل مزار کے احاطے میں ایک معذور بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا لیکن اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
 اسی طرح زیارت ریذیڈنسی جیسی مقدس رہائش گاہ کو نذرِ آتش کرنے اور قائداعظم کی نادر تصاویر کے پُرزے اُڑانے کا سفاک منظر بھی ان آنکھوں نے دیکھا۔ اگر یہ سب کچھ کافی نہیں تھا تو اب قائداعظم کی تصویر والے نوٹ لیکر قائداعظمؒ کے مزار کے احاطے کا تقدس پامال کرنے کا نظارہ بھی کر لیا۔اس موقع پر مجھے وہ خاندان یاد آیا جس نے ایک گلدان کو اپنے بزرگوں کی نشانی سمجھ کر پشت در پشت حفاظت میں رکھا تھا۔ ایک دن پوتا سہما سہما دادا کی خدمت میں حاضر ہُوا اور بتایا کہ آج گلدان اُس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا ہے۔ دادا یہ سُن کر گہری سوچ میں چلا گیا اور پھر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔ ’’بیٹا حفاظت کا دور ختم ہُوا اب ندامت کا دور شروع ہو گا جو کبھی ختم نہ ہو گا۔‘‘ خدا تعالیٰ احسان فراموش قوموں کو بڑے آدمی عطا نہیں کرتا اسی لئے آج ہم لیڈرشپ کے قحط الرجال میں مبتلا ہیں۔
دوسرا اہم سانحہ تھر میں 200 کے قریب بچوں کا قحط کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری عوام کی فلاح و بہبود پر ذرہ برابر بھی وسائل صرف نہیں کئے گئے اسی لئے اُن کی اکثریت حیوانوں سے بدتر زندگی گزار رہی ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہم اپنی عوام کو سہولتیں مہیا کرنا تو کجا بلکہ زندہ رہنے کے حق سے بھی محروم کر رہے ہیں۔ تھر کے باسی جنم جنم کے بدقسمت ہیں۔ ایک تو وہاں کی ہندو آبادی کی لڑکیوں کو زبردستی اغوا کرنے کی خبریں چھپتی رہی ہیں دوسرا ہمارے حکمرانوں کو تھر کی زمین کے نیچے اربوں کھربوں ٹن سیاہ سونا یعنی کوئلہ تو نظر آ گیا لیکن اُس کی دھرتی پر اُگتی بھوک نظر نہیں آئی۔ 22 ہزار مربع کلومیٹر صحرائے تھر میں 300 سے زائد گائوں اور 63 یو نین کونسلوں میں آباد 15 لاکھ سے زائد تھری عوام کے اناج اور مویشیوں کے چارے کا انحصار بروقت بارشوں کے رحم و کرم پر ہی رہتا ہے۔ اس راز سے انگریز بھی بخوبی واقف تھا۔ اس لئے اگر 15 اگست سے پہلے وافر مقدار میں بارش نہیں ہوئی تو وہاں گندم مہیا کرنے کے خصوصی انتظامات کر دئیے جاتے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر تواتر کے ساتھ اس قحط سالی کی خبریں آنے کے باوجود سندھ حکومت پہلے تو ٹس سے مس نہیں ہوئی اور جب وفاق نے افواجِ پاکستان کے ذریعے امداد بھیجی تو اُن کے وزیر اعلیٰ اپنی ٹیم کے ساتھ مظلوموں کی داد رَسی کرنے مِٹھی پہنچے وہاں اُن کے وفد کو لذیذ کھانوں کا لنچ جس میں ملائی بوٹی، فِش فنگر، بریانی اور تکے شامل تھے، پیش کیا گیا جبکہ عوام کفن تک سے محروم ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کیلئے بھی ایسے ہی پُرتکلف ظہرانے کا جال بچھایا گیا تھا لیکن اُن کی چھٹی حِس نے حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے یہ دانا چُگنے سے فوری انکار کر دیا اور یوں اپنی سیاسی ساکھ اور عزتِ سادات بچانے میں کامیاب ہوئے۔
ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ حکومت سندھ کے وزراء ٹی وی پر آ کر سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں اور ایسی تاویلیں پیش کر رہے ہیں جنہیں سُن کر عذر بدتر گناہ والی مثال بخوبی سمجھ آتی ہے۔ ایسی صورتحال میں زندہ اور غیرت مند قوموں کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے اس کی معمولی سی جھلک چند برس پہلے چلی میں دیکھنے میں آئی۔ جہاں 22 کان کُن کوئلے کی کان میں پھنس گئے تو وہاں کے وزیراعظم اور اُن کی اہلیہ نے جائے حادثہ پر ایک ماہ تک خیمے میں زندگی بسر کی اور اُس وقت تک وہاں سے نہیں ہٹے جب تک آخری کان کُن کو بھی بحفاظت بازیاب نہیں کرا لیا گیا۔ اب اس سے زیادہ بے حسی اور سفاکی اور کیا ہو سکتی ہے کہ بھوکی ننگی عوام کے سمندر کے بیچ میں آپ بوفے ڈِنر اُڑا رہے ہیں مگر اب ان سے پوچھے بھی کون کہ سیاں بھیئے کوتوال سندھ کا سیکرٹری صحت وزیر اعلیٰ کا داماد اور تھر کا ڈپٹی کمشنر امین فہیم کا صاحبزادہ ہے۔ تین ماہ قبل ہی یہاں قحط کے بھیانک سائے منڈلاتے دیکھنے کے باوجود حکومت سندھ نے ایک ارب روپے سے سندھ فیسٹیول اور ٹوپی اَجرک کے نام پر ناچ گانے کا اہتمام کیا جبکہ صحرائے تھر کے باسیوں کے صحنوں میں موت رقصاں رہی۔ یہ سب کچھ اُس پارٹی کے دور میں ہو رہا ہے جس کے بانی نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا تاریخی وعدہ کیا تھا۔ سندھ کے سائیں جو ہر بات پر ٹویٹر پر پیغام جاری کرتے ہیں اس مرتبہ نہ جانے کیوں خاموش رہے۔ ’’مرسوں مرسوں گندم نہ ڈیسوں‘‘ گندم کی ساٹھ ہزار بوریاں گوداموں میں سڑتی رہی اور عوام موت کو گلے لگاتے رہے …؎
گندم امیرِ شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی مگر غریب کی فاقوں سے مَر گئی
ہمارے حکمرانوں کو ایک تاریخی حقیقت یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ ’’بھوکی عوام کو سیاسی آزادی کی بڑی سے بڑی مقدار بھی مطمئن نہیں کر سکتی۔‘‘ اور برادرم ظفر رضوی صاحب کا کہنا ہے …؎
ایسے امیرِ شہر کو سنگسار کیجئے
در پے فقیر جس کے کوئی چیختا رہا

ای پیپر دی نیشن