اگر متحدہ ہندوستان ہوتا تو مسلمان کیا ہوتے…؟

Mar 13, 2014

ڈاکٹر ایم اے صوفی

… گاڑی کا تصور ان کے ذہن سے غائب ہے، اس کرئہ ارض پاکستان جس میں ہم رہتے ہیں، لوگ مکان بنانے سے پہلے گاڑی کھڑی کرنے کا سوچتے ہیں۔
شام دہلی کی مارکیٹ میں ہم گئے۔ مسلمان دکانداروں سے ملاقات ہوئی، ان کا کاروبار تعلیم و تربیت صنعت و زراعت سب کچھ ان کی نیم خاموشی اور مخمور نگاہوں سے ہم پر عیاں ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ یہ سب باتیں 1947ء کے بعد مسلمانوں پر ختم ہوتی جارہی ہیں۔ انہوں نے ان تمام چیزوں کا اظہار کیا جو اوپر بیان کی گئی ہیں، لیکن اپنے بچوں کی مشکلات اپنے جان  ومال کی حفاظت اپنے  مذہب کی حفاظت کے بارے میں وہ ایک اجنبی آدمی کو زیادہ نہیں بتاسکتے۔ بہرحال انہوں نے کہا ہم کام چلا رہے ہیں۔ زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن دشواریاں قدم قدم پر ہیں۔
دہلی ہی میں مولانا ابوالکلام آزاد میڈیکل کالج گیا۔ میں نے ان کی تصویر کالج کے دفتر میں نہ دیکھی جو ضروری تھی، وہاں پر تربیت حاصل کرنے والے ڈاکٹروں سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کام کرنے کا ڈھنگ دیکھا۔ ان کی تعلیم میں دلچسپی اور انتظامی امور کا جائزہ لیا۔ تعجب مجھے یہ تھا کہ کوئی مسلمان لڑکا ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے نہ ملا اور نہ ہی کوئی مسلمان پروفیسر میڈیکل کالج میں تھا۔ جس سے میرا تعارف کرایا گیا، وہ ہندو اور سکھ تھے۔ لہٰذا فنی اور دیگر علوم کی تعلیم یا یونیورسٹی سطح پر مسلمان تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ میں نے سائنس و ٹیکنالوجی علم کیمیا کے میدان کا بھی جائزہ لیا۔ یہی حال ہے ڈاکٹر ذاکر جو بھارت کے صدر رہ چکے ہیں۔ ان کی یونیورسٹی میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر بھی مایوسی ہوئی۔ حالانکہ میں ان دونوں افراد کے سیاسی کردار سے بڑی مخالفت رکھتا ہوں۔ ان دونوں افراد نے مسلمانوں کی آزادی کے راستے روکے اور مسلمانوں کو سیاسی میدان میں پیچھے رکھا۔ اب دیکھئے پاکستان میں تمام شعبہ ہائے میں تحقیق و ریسرچ ہورہی ہے، پاکستان کو دنیا کی ہر چیز میسر ہے۔ تعلیمی میدان میں فنی تعلیم، میڈیکل کی تعلیم اور دیگر شعبوں میں ریسرچ و تحقیق ہورہی ہے۔ ساتھ ساتھ ایٹمی توانائی تر تحقیق ہورہی ہے۔ بجلی پیدا ہورہی ہے، دیگر سائنسی علوم آئسی ٹوپ کے مراکز بھی قائم ہورہے ہیں۔ صنعتی میدان میں بھی پاکستان کسی ملک سے پیچھے نہیں ہے۔ زراعت میں بھی پاکستان کی پیداوار زیادہ ہے۔
ہمیں دہلی کے پاس سہارنپور جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم وہاں پہنچے سائیکل رکشہ والوں نے گھیر لیا۔ مسلمان چھوٹا موٹا کام کاج کرتے ہوئے نظر آئے۔ کوئی لکڑی کا کام کررہا ہے، سبزی بیچ رہا ہے، سائیکل کا کام کررہا ہے، پان بیڑی کی دکان ہے، گھریلو صنعت کا چھوٹا سا کام اور سائیکل رکشہ چلا کر اپنا پیٹ پال رہا ہے۔ یہاں ہم نے مسلمانوں کے لئے ایک ہائی سکول دیکھا تھا جو بعد میں کالج بن گیا۔ وہاں گئے اور پرنسپل سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ یہاں کتنے مسلمان بچے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ مسلمان بچے چھ سات کلاس پڑھ سکتے ہیں۔ آٹھ نو میں تو ایک دو بچے رہ جاتے ہیں اور دسویں جماعت تک صرف ایک رہ جاتا ہے۔ اس اسلامیہ کالج میں ہندو لڑکے پڑھتے ہیں۔ تصویریں ساری ہندو رہنمائوں کی تھیں۔ مسلمانوں کا بھارتی سماج میں کوئی وقار نہیں، سیاسی وجود نہیں، تحفظ نہیں، اقتصادی پوزیشن نہایت کمزور ہے۔ مسلمانوں کے بچے اکثر مزدوری کرتے ہیں، کم آمدنی والے لوگ ہیں۔ مسلمانوں کے بچے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ میں نے ان کے احساسات کے بارے میں پوچھا کہ ان کے احساسات کیا ہیں؟ انہوں نے بتایا احساسات کچھ عرصے کے لئے ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احساسات بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ اس وقت ان کے ہاں نہ کوئی رضاکار تنظیمیں، انجمنیں ہیں اور نہ کوئی فلاحی مرکز جو نوخیز بچوں کو کوئی پیشہ ورانہ تعلیم یا دوسری تعلیم کے لئے مدد کریں یا پھر ان میں کوئی شعور پیدا کریں۔ اب وہاں پر یہی شعور ہے کہ مرد و زن اور بچے نے کام کرنا ہے، مزدوری کرنی ہے اور روزی کمانی ہے۔ اقتصادی ناہمواری سے ہند کے مسلمانوں میں سماجی تحفظ ختم ہوتا جارہاہے۔ یہ ایک اور بہت بڑی ذلت مسلمانوں کے لئے ہے کہ مسلمان والدین خود اپنی بچیوں کی شادی ہندوئوں کے ساتھ کررہے ہیں تاکہ بچیاں زندگی اچھی بسر کرسکیں۔ انہیں سماج میں تحفظ میسر آسکے۔ مسلمان اس وقت مجموعی طور پر پریشان حال ہیں اور کوئی ذریعہ باہر نکلنے کا ان کو نظر نہیں آتا۔
قائداعظمؒ  نے اس بات کی نشاندہی کی تھی اگر مسلمانوں کو علیحدہ ملک نہ ملا تو متحدہ ہندوستان میں ہندو ہمیشہ مسلمانوں کو دبا کر رکھیں گے اور مسلمان مغلوب ہوجائیں گے۔ ہندو ساہوکاروں نے مسلمانوں کو قرضے دلا کر غلام بنا لیا ہے۔ مسلمان مقروض ہیں۔ ان کی جان و مال کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ مجھے خود بھی یاد ہے کہ 1947ء سے قبل ہندو ساہوکار تجارت کا لین دین کرتے تھے۔ ہمارے بزرگ جو سادہ لوح تھے، کھیتی باڑی کرتے تھے، ساہوکار شادی بیاہ پر یا کسی خوشی کے موقع پر قرض ان کو لینے کی تجویز دیتے اور قرض کی رقم ہندو بنیا یا مہاجن ایک کونے پر لکھ لیتا تھا اور نیچے مسلمان کے انگوٹھے کا نشان لگوا لیتا۔ حساب کتاب اس طرح ہوتا تھا کہ کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ اس حساب کو نہ کوئی دوسرا آدمی سمجھ سکتا تھا۔ شر ح سود اتنی زیادہ ہوتی کہ مکان یا زمین سے بھی ان کو ہاتھ دھونا پڑتا تھا۔ قرض کا ایسا پھندا تھا کہ مسلمان ساری زندگی بنیا، ساہوکار اور مہاجن کی چال سے چھٹکارا نہیں پا سکتا تھا۔ ہمارے خود ایک رشتہ دار نے ایک درانتی کے عوض بھینس دے کر چھٹکارا حاصل کیا۔ ان کا طریقہ کار یہی تھا کہ پہلے حوصلے دیتے پھر قرضہ دیتے اور پھر بھاری سود کے عوض اور پرانے قرضوں کے عوض مسلمان کی زمین یا گھر یا گھر بار کا سامان سمیٹ لیتے ہیں۔ بے شمار مسلمان کسان اپنی زمینوں سے بے دخل کئے گئے۔
قائداعظمؒ اسی ساہوکار بنیا کے خدشہ کے تحت متحدہ ہندوستان کے خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان کا اپنا ملک ہو، جس میں ساہوکار بنیا قرضے دینے والے نہ ہوں۔ ان کے ساتھ ظلم و ناانصافی نہ ہو اور جس سے ہندو مسلمانوں کی زمینیں، جائیدادیں اپنے پنجوں میں لے لیتے تھے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ یہ ہندوئوں کے وہ تیر تھے جس نے مسلمانوں کے جسم میں کمی ہونے کا زہر پیدا کیا۔ جس سے وہ کمزور ہوتے گئے۔ ہندو بہت میسنا ہے اور وہ مسلمان کی جائیداد، زمینیں قرق کردینا چاہتا تھا۔ یہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور دوسرے رفقاء کا  احسان ہے کہ جنہوں نے علیحدہ وطن کے لئے جدوجہد کی اور ہندوئوں کی مخالفت کی جس سے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن پاکستان وجود میں آیا۔ جہاں وہ آزادی کے ساتھ سب کچھ کرسکتے ہیں۔

مزیدخبریں