اسلام آباد (آئی این پی+ثناء نیوز+وقائع نگار خصوصی) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ایسٹ) راجہ جواد عباس نے اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی ایف ایٹ کچہری سانحہ کا آئی جی اسلام آباد، ایس ایس پی آپریشن اسلام آباد اور ایس ایچ او تھانہ مارگلہ کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لئے دائر درخواست پر آئی جی، ایس ایس پی اور ایس ایچ او مارگلہ کو 14 مارچ کے لئے نوٹس جاری کر دیئے۔ ڈسٹرکٹ بار اسلام آباد کے صدر نصیر اختر کیانی اور دیگر عہدیداروں کی طرف سے سیشن جج کو دی گئی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایف ایٹ کچہری سانحہ اسلام آباد پولیس کی ناقص سکیورٹی کی وجہ سے پیش آیا اور اس وجہ سے اس واقعہ میں ایڈیشنل سیشن جج سمیت متعدد وکلاء جاں بحق ہوئے۔ درخواست میں آئی جی، ایس ایس پی آپریشن اور ایس ایچ او مارگلہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے تینوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشل انکوائری کمیٹی نے ماتحت عدالتوں کی منتقلی تک حفاظت کے لیے رینجرز کی تعیناتی کا احکامات جاری کردئیے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی صدارت میں جوڈیشل کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز ایف ایٹ کچہری میں منعقد ہوا ۔ کمیٹی اعلامیہ کے مطابق انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ انکوائری میں معاونت کے لئے ایس پی (سی آئی اے ) کو انکوائری کمیٹی کے ساتھ لگایا جائے کمیٹی نے سانحہ ایف ایٹ کچہری کی تحقیقات میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے یاسین فاروق کو بھی کمیٹی کا معاون مقرر کیا گیا ہے کمیٹی کے اجلاس کے دوران ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نذیر احمد کو پمز میں زخمیوں کے بیانات قلمبند کرنے جبکہ آئی جی پولیس کو سپیشل برانچ ایس ایس پی آپریشن اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی ہدایت کی ہے جبکہ آئی جی پولیس کو سپیشل برانچ ایس ایس پی آپریشن اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ جوڈیشل انکوائری کمیٹی کو پیش کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ قانون نافذ کر نے والے اداروں نے سانحہ اسلام آباد کچہری میں مبینہ خود کش حملہ آور کی مبینہ والدہ کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق گزشتہ روز پولیس اور قانون نافذ کر نے والے اداروں نے اسلام آباد کچہری حملے میں ملوث خود کش حملہ آور کی مبینہ والدہ کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس کو لاہور کے علاقے اقبال ٹائون سے دو ماہ قبل لاپتہ ہونے والے نوجوان فدااللہ پر سانحہ اسلام آباد کچہری کے خود کش حملہ آوروں میں سے ایک ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔اس ضمن میں فدا اللہ کی والدہ پلوشہ بی بی کو حراست میں لے کر اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد اصل حقائق سامنے آجائیں گے۔