اسحاق ڈار نے کر دکھایا…

اگرچہ پاکستانی کرنسی کی قدر  میں گذشتہ چار دہائیوں سے متواتر کمی واقع ہو رہی ہے لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے سے ماضی کے تمام ریکارڈز ٹوٹ گئے۔ 1960ء کی دہائی میں 4.76روپے کا ایک امریکی ڈالر تھا، 2005ء میں ایک ڈالر 59.30 روپے کا ہو گیا جبکہ 2013-14ء میں تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت 110 پاکستانی روپے کا ہو گیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کیونکہ عموماً عالمی تجارت ڈالر میں ہوتی ہے لہٰذا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے سے ہمارا تجارتی خسارہ بڑھا، درآمدات کی لاگت بڑھنے سے خام مال مہنگا ہوا جس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا اور برآمد کنندگان کو نقصان اٹھا کر غیرملکی خریداروں سے کئے ہوئے معاہدے پورا کرنا پڑے۔ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوئیں جس کا بار ایک طرف تو عوام پر پڑا اور دوسری طرف تھرمل ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت اور بڑھ گئی جس نے صنعتی شعبے اور عام لوگوں کو بہت بری طرح متاثر کیا جبکہ سٹے بازوں نے بھی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا خوب فائدہ اٹھایا اور ڈالر سٹاک کر کے کئی مرتبہ مارکیٹ میں اس کی مصنوعی قلت پیدا کی۔ اس صورتحال کی وجہ سے کاروباری برادری بری طرح پریشان تھی کیونکہ سب سے زیادہ نقصان اسی کو برداشت کرنا پڑ رہا تھا اور مستقبل قریب میں ڈالر کی قیمت ڈیڑھ سو روپے سے تجاوز کرنے کی خبریں مزید دہلائے جا رہی تھی لیکن وفاقی وزیر خزانہ کے بیان کی صورت میں باد نسیم کا ایک جھونکا آیا، دسمبر 2013ء میں گورنر ہائوس میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے اجلاس میں اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ ڈالر کی قیمتیں جلد ہی نیچے آنے والی ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ اعلان صرف اعلان کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے پاکستانی روپے کی قدر مستحکم بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جس کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت 100روپے سے بھی کم ہو چکی ہے جبکہ حالات و واقعات عندیہ دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن حکومت، بالخصوص اسحاق ڈار ڈالر کی قیمت میں مزید کمی لانے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ حکومت کا یہ قدم مجموعی طور پر اس قدر فائدہ بخش ثابت ہو گا کہ بہت سے لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ اب قوی توقع کی جا سکتی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئے گی جس سے عوام الناس کے کندھوں پر پڑا بوجھ کم ہو گا۔ ان کی قوت خرید بڑھے گی اور معیار زندگی بہتر ہو گا۔ خصوصاً جی ایس پی پلس سٹیٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈالر کی قیمت میں کمی کی اہمیت مزید دوچند ہو جاتی ہے۔ ملک میں بجلی کا ایک بہت بڑا حصہ چونکہ ڈالر صرف کر کے درآمد کئے جانے والے تیل سے پیدا کیا جا رہا ہے لہٰذا حکومت کو بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کرنی چاہئے جو عوام کے لئے ایک بہت بڑے ریلیف کے مترادف ہو گا۔ چونکہ نواز شریف حکومت سے لوگوں کو ہمیشہ توقعات رہی ہیں لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت فوری طور پر ڈالر کی قیمت میں کمی کے فائدے سٹیک ہولڈرز تک منتقل کرنا شروع کر دے گی۔ حکومت کو ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ کرنسی کی قدر میں کمی کوئی انہونی بات نہیں۔ ماضی میں دنیا کے بہت سے ممالک نے ایسا کیا ہے۔ ہم سب توقع کرتے ہیں کہ ان مسائل کو جڑ سے اکھاڑ کر معاشی بہتری کا یہ عمل جاری رکھیں گے جس کے لئے کاروباری برادری ان سے ہرممکن تعاون کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...