کشمیر ہے دلگیر............؟؟

جواہر لعل یونیورسٹی کے پروفیسر کے جرا¿ت مندانہ بیان اس صدی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ اب تک یہ بات کہنے کا کسی میں حوصلہ ہوا تھا۔ جو با ت پروفیسر نوید تامنین نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر یونیورسٹی میں طلباءکے ایک اجتماع سے دوران تقریر کہی۔ انہوں نے صدق دلی سے کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ بھارت نے اس پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے اور واویلا مچا کے ایک دنیا کو اپنا ہم خیال بنانے پر تلا ہوا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے بھارت کی جارحانہ اور بیہمانہ سرگرمیوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ انہوں نے کہا ایک طویل عرصہ سے جموں و کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی خلاف رزیاں ہورہی ہیں۔ ڈوگرہ فوج معصوم دوشیزاﺅں کی عصمتیں پامال کررہی ہے اور ماﺅں کے جگر کے ٹکڑے ذبح کررہی ہے۔ یہ وحشیانہ سلوک وہاں کب تک ہوتا رہے گا۔ انسانیت کب تک بہکتی رہے گی ہم سب کو مل کر آواز اٹھانی چاہیے۔ جو بھی پروفیسرنوید تامنین نے کہا اور جس موقع پر بھی کہا قابل صد احترام ہے۔ ابھی دنیا میں باخبر انسان باقی ہیں۔ جھوٹ کذبانترا¿ اور تشدد پسندی کے اندر سے ہمیشہ حق کی آواز بلند ہوتی ہے۔
ایسی ہی بات جناب کنہیا کمار نے افضل گورو کی برسی پر بھی کہی تھی۔ جس پر انہیں فوراً غداری کے ایک مقدمہ میں دھرلیا گیا تھا۔
مقبوضہ جموں اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ انسانی تاریخ کے چہرے پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ جس کو بھارت اب زیادہ عرصہ نہیں چھپا سکے گا۔ اب پھر ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اس صدائے احتجاج کا سہارا لیکر کشمیر ایشوکو پوری تندہی سے اٹھادے اور ضمیر عالم کو بیدار کرے ہر جمہوری حکومت میں ایک کشمیر کمیٹی بنائی جاتی ہے۔ دبنگ قسم کی شخصیات کو ان کا چیئرمین بنایاجاتا ہے۔ اس کمیٹی کے اندر بیس سے بائیس تک ممبر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ایک خطیر فنڈ ہوتا ہے اور وزارت سے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں جناب نواب زادہ نصر اللہ اس کے چیئرمین رہے۔ اب مولانا فضل الرحمن اس کے چیئرمین ہیں۔ کسی حکومت نے ان سے پوچھا کہ ان کی سالانہ کارکردگی کیا ہے وہ کتنے ملکوں میں گئے۔ کہاںکہاں جاکے انہوں نے کشمیر کاز پر میٹنگیں ، سیمینار اور مطالعہ کیا۔
چلیئے پچھلا حساب چھوڑیئے۔
اب تو بھارت کی ایک مستند یونیورسٹی سے حق و انصاف کی آواز اٹھی ہے تو اس کو بنیاد بناکر کشمیر کمیٹی ملک کے اندر اور ملک کے باہر کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ارادہ کیوں نہیں رکھتی، یوں کشمیر کمیٹی آئے دن غیر ملکی دوروں پر جاتی ہے، بزنس کلاس میں سفر کرتی ہے ، فائیو سٹار ہوٹلوں کی رہائش انجوائے کرتی ہے۔
مگر کیا منہ لے کے آتی ہے نہ تو وزارت امور کشمیر کی طرف سے ایسے بیانات کا ردعمل آتا ہے اور نہ کشمیر کمیٹی میں ہلچل نظر آتی ہے۔ اگر بھارت سے کسی اہل دل نے آواز اٹھائی ہے تو شاید قدرت کو بھی مظلوم اور دیگر کشمیریوں پر رحم آگیا ہے کہ عرصہ سے وہاں لہوکی ندیاں بہہ رہی ہیں اور ان پر ہر دور میں عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا یوں تو ہر بات پرشور مچاتاہے مگر پروفیسر نویدتامنین کے بیان پر زیادہ پروگرام دیکھنے کو نہیں ملے۔
کیا وزارت امور کشمیر کا بس یہی کام ہے کہ سال میں ایک بار کسی فائیو سٹار ہوٹل میں ایک نیشن ایبل قسم کا سیمینار منعقد کرے.... اور پھر منہ لپیٹ کے سوجائے۔ یہی بات ہم کراچی کے بارے میں بھی کہہ سکتے۔
کئی سالوں سے کراچی کراہ رہا تھا، اس کے خوبصورت جسم سے سہورس رہا تھا۔ سب جانتے بھی تھے کہ کراچی کے حالات دگرگوں کرنے میں کس کا ہاتھ ہے مگر سب مصلحتاً چپ رہتے تھے۔ سب حکومتوں کو کس کا انتظار تھا۔ سب حکومتیں ایم کیو ایم کے قائد کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوجاتی تھیں۔ مگر عمران فاروق کے بیہیمانہ قتل کے بعد.... سرگوشیاں آہٹوں اور کرلاہٹوں میں بدل گئی تھیں۔
اگر مرکزی دائرے سے دوچار لوگ ٹوٹ کر آئے ہیں تو ان کی بات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا جارہا کیا حالات کو مزید ابتر کرنے کا انتظار ہے۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
جب تاریخ کروٹ لیتی ہے تو وہ چاہتی ہے سوئے ہوئے انسان جاگ اٹھیں۔ اسی ملک میں کئی سیاسی پارٹیاں ٹوٹی ہیں۔ ان کی شاخیں نکل کر پھیلی ہیں۔ مسلم لیگ ہی کو لیجئے آج قائداعظم کی مسلم لیگ ٹکڑیوں میں بٹ چکی ہے مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح زندہ ہے۔ مصطفےٰ کمال ایک نئی پارٹی بنانے کی نوید دے رہا ہے تو اس نے کچھ سوچ رکھا ہوگا۔ یہ کام ایک رات میں یا ایک ہفتے میں نہیں ہوتا۔ اس میں بہت زیادہ سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے مصطفے کمال کو باور ہوکہ جب وہ اور اس کے ساتھی صرف اردو بولنے والوں کا نام لیتے ہیں تو وہ اپنی جماعت کو گروہی جماعت بنالیتے ہیں۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور سکولوں کے نصاب کا حصہ بھی ہے۔ سارے پاکستان میں رابطے کی زبان ہے جبکہ کراچی میں ہر ذات اور ہر قومیت کے لوگ بستے ہیں۔ اس لئے مصطفے کمال کی پارٹی کا نام ایسا ہونا چاہیے جو سارے پاکستان کی نمائندگی کرتا ہو اور جس کے اندر تمام زبانیں بولنے والے پاکستانی شامل ہو اور وہ قومی دھارے کی پارٹی بن جائے۔
ایم کیو ایم نے بہت کوشش کی کہ وہ دوسرے صوبوں میں اپنے کارکن پیدا کرے اور انتخابات میں اپنے نمائندے کھڑے کرے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کی وجہ اس کا ماضی رہا ہے۔ پھر وہ اپنے اوپر مہاجر کا ٹھپہ لگائے رکھنا چاہتی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس خطے میں ایک اہم ملک ہے۔ پاکستان اپنے سرحدی ہمسایوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے اگر کوئی پاکستان لیڈر پاکستان کو للکار کے بھارت کی طرف دیکھے گا یا اس قسم کی مدد بھارت سے طلب کرے گا تو وہ پاکستان کا لیڈر نہیں کہلاسکے گا۔
کشمیر کا منصفانہ تصفیہ کئے بغیر انڈیا کے ساتھ نارمل روابط کیسے برقرار رہ سکتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب پاکستان کی وزارت خارجہ کو آگے بڑھکر ساری دنیا کو بتادینا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن