اب انہیں ڈھونڈ رخ زیبا لیکر

ذی علم ‘ قیام اللیل ،نائم النھار، نفاست پسند، نازک رفتار، گرم گفتار، درمیانہ قد، بھرا ہْوا جسم، کشادہ پیشانی، جلال سے روشن موٹی موٹی حلقہ دار آنکھیں، ابھرے ہوئے رخسار‘ شانے چوڑے اور مضبوط، جسم گھنا ایک شجردار، مفلس وضعدار، باوقار، باکردار، عابد شب زندہ دار،گھنی داڑھی جیسے سنگ سیاہ پر سپیدی کی ژالہ باری ، گندمی رنگ میں کالی سرخی کے آثار، آنکھوں سے ذہانت کی ٹپکتی دھار، چوڑے ہاتھ،سر پر رکھی سفیدٹوپی ، ذی عقل ، عوامی حقوق کے پاسدار، تکلفات سے بیزار، سخن فہم، نفاست پسند، جملہ محاسن میرے استاد محترم مخدوم رشید احمدمرحوم کے ہیں میں نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو برادر اکبر سیف اللہ تارڑ کے ہمراہ قریبی پرائمری سکول ڈیرہ ہاشم خان کھنب خورد میں جانا شروع ہوا ۔یہ سکول ہمارے ڈیرے سے کافی مسافت پہ ہے لیکن تب اس علاقے کے سبھی طلبا ء اس سکول میں پڑھنے آتے تھے اور میں بھی اسی سکول میں آنا شروع ہو ا۔ ہمارے زمانے میں استاد محترم مخدوم رشید احمدمرحوم سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور انکے ہمراہ محترم منظور صاحب ہمیں پڑھاتے تھے سکول تو قصبہ کھنب خورد کی حدود میں تھا۔ تاہم اس میں کدھر شریف میانوال رانجھا اور کھنب خورد کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ آپ اسے سکول کہنے کی بجائے جنگل میں منگل کہہ سکتے ہیں استاد محترم مخدوم رشید احمدؒ کی محنت کے باعث سکول ڈیرہ ہاشم خان کی اپنی ہی ایک شہرت تھی اس سکول کا سب سے بڑا اعزاز اسکے طلباء کا خوش خط ہونا تھا۔ مجھے کچھ کچھ یاد ہے کہ ہمارے دور میں اس سکول میں کھنب خورد کے ایک طالبعلم محمد منشاء نے وظیفہ بھی حاصل کیا تھا۔ میری کلاس میں خوشخطی کے لحاظ سے کھنب خورد کا محمد ساجد ولد محمد انارسب سے آگے تھا کلاس میں میرے ہمسائے محمد آصف دھول اور انکے بڑے بھائی حافظ محسن دھول سکول کی اسمبلی میں دعا اور تلاوت کرتے تھے۔ سکول میں کھیلوں کا بھی بڑا اچھا انتظام تھا۔ اس وقت سکول کے گرد چار دیواری نہیں تھی۔ بس بیری اور جھاڑیاں کاٹ کر سکول کے گرد باڑ لگائی جاتی تھی۔ مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرے اساتذہ نے مخدوم رشید احمدؒ کے بھتیجے ممتاز اور صفدر تارڑ میانوال رانجھاکے درمیان کشتی کروائی تھی۔ جس میں ممتاز کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ لیکن کھیلوں کی سرگرمیاں بڑے اچھے انداز سے چلتی رہیں۔ کبھی کبھی طلباء دوڑ بھی لگاتے تھے۔ استاد محترم مخدوم رشید احمد کی شہرت کے باعث دور دور سے طلباء یہاں آ کر پڑھتے تھے۔ منڈی بہائوالدین شہر سے مٹھو بھائی سپیشل پڑھنے یہاں آئے اور برادرم محمد اکرم تارڑ کے گھر میں رہائش اختیار کی۔ بات بہت دور نکل گئی میں تو اصل میں اپنی کہانی اور مخدوم خاندان سے تعلق کے بارے بتانا چاہ رہا تھا۔ استاد محترم مخدوم رشید احمد کے صاحبزادے حافظ حبیب اللہ مخدوم جب اس سکول میں بطور استاد تعینات ہوئے تو میری زندگی میں انقلاب آیا۔ حافظ حبیب اللہ صاحب جب پڑھاتے تو بسا اوقات سبق یادنہ ہونے پر سزا دیتے تھے۔ یہ میں اس دور کی بات کر رہا ہوں جب طلباء کو سزا دینے پر کوئی پابندی نہ تھی اور طلباء اساتذہ کے سائے سے بھی خوف کھاتے تھے لیکن اب ’’مار نہیں پیار‘‘ کے سلوگن کے بعد طلباء اساتذہ کے گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ ادب ختم ہو گیا ہے۔ طالبعلم کے دل سے اساتذہ کا ادب نکلنا ایسا ہی ہے جیسے جسم کے اندر سے روح نکل جائے۔ حبیب اللہ مخدوم صاحب سبق نہ یاد ہونے پر سزا دیتے تو ایک لفظ ضرور کہتے تھے جو جو قرآن حفظ کر یگا۔ وہ آکر بیٹھ جائے اسے سزا نہیں ملے گی۔ میرا ہاتھ سب سے اوپر ہوتا۔ تو وہ کمال شفقت سے بیٹھنے کی اجازت دے دیتے۔ میرے ساتھ شبیر احمد تارڑ مرحوم اور میانوال رانجھا سے فاروق حفظ کرنے کیلئے مدرسے میں داخل ہوئے لیکن برادرم شبیر سے زندگی نے وفا نہ کی اور فاروق کہیں دنیا میں کھو گیا۔ لیکن اللہ کا شکر ہے میں نے حفظ قرآن کر لیا۔ جب میں اڈا والی مسجد میانوال رانجھا میں داخل ہوا تو اسکے پیچھے بھی حافظ حبیب اللہ مخدوم کی کوشش تھی۔ میانوال اڈا والی مسجد میں استاد محترم حافظ فیض اللہ صاحب حافظ نواز صاحب کی کمال شفقت سے قرآن پاک حفظ کیا۔ میں تو میانوال رانجھا کے ایک ایک فرد کا احسان مند ہوں۔ ان گلیوں سے میری بڑی یادیں وابستہ ہیں اڈا پر چاچا نذیر لوہار، حاجی مشتاق سامنے دلاور بٹ کی دکان نکر پر بٹ صاحب کا ایک کھوکھا ہوٹل ہوتا تھا۔ نماز عصر کے بعد ہائی سکول کی جانب کھیلنے چلے جاتے تھے اس گائوں نے ہر زبان رنگ اور حسب ونسب سے تعلق رکھنے والے طلباء کو اپنے اندر کمال محبت سے جگہ دے رکھی تھی۔ اتفاق سے اسلام آباد مسلم لیگ ہائوس میں امتیاز احمد رانجھا سابق ایم پی اے سے ایک انٹرویو کے دوران ملاقات ہوئی لیکن جب میں نے ان سے میانوال رانجھا کی یادیں شیئر کیں تو مجھے گلے لگا لیا ۔ مجھے آج بھی اس بات پر فخر ہے میں جس مقام پر ہوں اس میں میانوال رانجھا کے حلال اکل وشرب کا بڑا دخل ہے۔ میانوال سے حفظ کے بعد اساتذہ کے مشورے سے میرا اگلا پڑائو لاہور تھا اور یہاں پر بھی مجھے مخدوم خاندان کی شفقت ملی برادر اکبر محمد اکرم تارڑ اور چچا عنایت تارڑ کے ہمراہ لاہور آیا۔ تو سلمانہ ہائی سکول سمن آباد میں مولانا قاری حنیف مخدوم سے ملے انہوں نے 1996ء میں جامعہ صدیقیہ توحید پارک میں شعبہ تجوید میں داخلہ لے کر دیا۔ 1997ء میں انکی مشاورت سے ہی جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ میں شعبہ کتب اور تجوید میں داخلہ لے لیا۔ میں کچھ ابتدائی دن حنیف مخدوم صاحب کے گھر میں ہی ٹھہرا رہا۔ برادرم ضیاء اللہ مخدوم اور عزیزم عطاء اللہ مخدوم کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے جو الحمداللہ ہنوز قائم ہیں۔ استاد محترم مخدوم رشید احمد مرحوم جب لاہور تشریف لائے تو ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ میں آخری مرتبہ گزشتہ برس عید الفطر کے موقع پر انکے گھر میں حافظ ثناء اللہ لالی کے ہمراہ ملاقات کیلئے حاضر ہوا کمال شفقت سے انہوں نے گلے لگایا۔ اپنے ہاتھوں نمک لگا کر جامن کھلاتے رہے۔ انکے پوتے عثمان مخدم سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں تھا۔ لیکن انکی بیماری کی خبر کہیں سے نہیں سنی انکی وفات سے نہ صرف خاندان کو صدمہ پہنچا بلکہ انکے لاکھوں شاگردبھی شفقت پدری سے محروم ہو گئے ہیں پورا مخدوم خاندان میرا محسن ہے استاذ محترم حافظ حبیب اللہ، محمد ارشد مخدوم، بھتیجے محمد اشرف مخدوم، محمد افضل، محمد اکرم، حافظ کفایت اللہ، عنایت اللہ اورغلام اللہ کو اللہ تعالی صبرجمیل عطاء فرمائے اور اللہ تعالیٰ مخدوم رشیدمرحوم کی مغفرت فرمائے اور انکی اولاد کو انکا صحیح جانشین ثابت کرے۔

ای پیپر دی نیشن