ہر فرد بشر جانتا ہے کہ لوگوں کے اخلاق جو بہت کچھ بگڑ گئے ہیں اور دن بدن بگڑتے جاتے ہیں خصوصاً مسلمانوں کے اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ صرف یہی ہے کہ اخلاقی تعلیم کی طرف بہت ہی کم توجہ ہے تو یہ قصور کس کا ہوا بچوں کا ؟نہیں یہ قصور ہمارا ہے پس اخلاقی تعلیم کا سلسلہ اگر ہمارے گھروں سے اٹھ گیا ہے تو پھر قائم کرنا ہمارے ہی اختیار میں ہے حاکم کی کم توجہی سے رعایا پر ظلم ہوتا ہے افسر فوج کی لاپرواہی سے فوج شکست کھا کر ماری جاتی ہے ۔ ناخدا کی سستی سے جہاز راستہ بھول کر غرق ہو جاتا ہے۔ ڈرائیور کی غفلت سے گاڑیاں ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں۔ جس سے ہزاروں جانیں تباہ ہو جاتی ہیںان دنوں یہ عام شکایت سننے اور خاص کر دیکھنے میں آ رہی ہے کہ بہت سے طالب علم دن بدن گستاخ اور شریر ہوتے جارہے ہیں ان کی آنکھوں میں شرم و حیا کا نام تک نہیں رہا ماں باپ کا انہوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے اور استادوں کا ادب طاق پر رکھ کر ہر وقت ان کی آبرو ریزی کے درپے رہتے ہیں برابر والوں کے ساتھ ہر وقت فساد اور لڑائی جھگڑا رہتا ہے پس عادت اچھی ہو یا بری سدھارنے سے سدھر سکتی ہے۔پس ایسے ہی ماں باپ ا ور استادوں کی غفلت اور لاپرواہی اور کم توجہی سے طالب علموں کا ستیا ناس اور زندگی برباد ہو جاتی ہے کیوں؟غفلت اور لاپرواہی ہے جب یہ بری مجلسوں گستاخ اور بے ادب لوگوں کی صحبت اختیار کریں گے او رخود ہی بے ادب اور گستاخ ہو جائیں گے جیسے کہ کسی نے کہا ہے جو شخص برے کی صحبت میں بیٹھتا ہے ویسا ہی برا ہو جاتا ہے اور عقلمندوں کے پاس بیٹھتا ہے اس کی عقل بڑھتی ہے ۔پس بد صحبت میں بیٹھنے سے خود بدنام ہو گا اور بزرگوں کے نیک نام کو بھی بدنام کرے گا اور نیکوں کی مجلس میں بیٹھنے سے خود بھی نیک ہو گا اور بزرگوں کے نام کو بھی روشن کرے گا۔ مگر اصحاب کہف کا کتا چند دن نیکوں کے ساتھ رہا نیک ہو گیا پس والدین کو واضح ہو کہ بچے اگر ابتدا سے ہی بری صحبت اختیار کریں گے اور ان کو اس سے منع نہ کیاگیا تو بعد میں ان کو کسی طرح کا بھی سمجھانا اثر نہ کرے گا۔ تو بس جان لیں کہ وہ نقش بر سنگ ہو ئی پھر اس کو ہٹانا اور مٹانا امر محال ہو گا جو درخت کہ ابھی اگا ہے ایک آدمی کی قوت سے اکھڑ سکتا ہے اور اگر ویسا ہی کچھ مدت رہے تو چرخ سے بھی نہیں اکھڑ سکتا اسی طرح شیخ سعدی فرماتے ہیں جو طفلی میں نہ دیں اس کو ادب ہو جوانی میں کیا فلاح اسکی۔ گیلی لکڑی جھکا لو جدھر‘ سکو کبھی جز آگ کے نہ ہو سیدھی پس اچھی ہو یا بری اول ہی اول سدھارنے سے سدھر سکتی ہے۔
جس کا اصل خراب ہوتا ہے اس کو نیکوں کی صحبت سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا جس طرح گبند پر گولی نہیں ٹھہرتی اسی طرح نالائق کو جو تعلیم دی جائے گی سب برباد ہو جائے گی وہ راہ راست پر نہیں آتا بلکہ وہ اپنے اصل کی طرف ہی رجوع کرتا ہے یعنی ہر ایک چیز اپنے مقاصد کی طرف رجوع کر تی ہے۔ اور کیا ہی عمدہ اس موقع پر ایک حکایت یاد آئی ہے کہ بزرگ پہنچے ہوئے اپنے مصلے پر بیٹھے ہے نگاہ ایک چوہیا ا ن کے آگے آن پڑی آپ کو اس کے حال پر رحم آیا خدا وند تعالٰی سے دعا کی ان کی دعا کی برکت سے وہ ایک خوبصورت لڑکی ہو گئی آپ نے بچوں کی طرح اس کو رکھا جب وہ جوان ہوئی تو بزرگ نے کہا کہ جہاں تجھے منظور ہو میں اس سے تیری شادی کر دوں لڑکی نے کہا کہ جو سب سے بلند مرتبہ ہو اس سے میری شادی کر دو اس بزرگ نے کہا کہ اس صفت کا تو آفتاب ہے لڑکی نے کہا اچھا اس بزرگ نے یہ قصہ آفتاب سے کہا اس نے جواب دیا کہ مجھے سے بڑھ کر ابر ہے کہ ان میں مجھے چھپا دیا ہے درویش نے ابر سے کہا ابر نے کہا مجھ سے قوی ہوا ہے کہ ایک جھونکے میں مجھے کوسوں اڑا دیتی ہے اس نے ہوا سے حال بیان کیا ہوا نے کہا مجھ سے بڑھ کر پہاڑ ہیں سینکڑوں ٹکریں کھایا کرتے ہیں مگر ان کو جنبش نہیں ہوتی درویش نے پہاڑوں سے کہا پہاڑ نے کہا میری ظاہری صورت پر خیال نہ کرنا مجھ میں سینکڑوں چھید چوہے نے کر دئے ہیں اور مجھ سے کچھ نہیں بن پڑتا بزرگ نے یہ سب حقیقت اس لڑکی سے بیان کی لڑکی نے کہا چوہوں سے کہو جب درویش نے چوہے سے کہا اس نے منظور کر لیا اس بزرگ نے خدا سے دعا کی وہ لڑکی صورت اصلی پر آ گئی اور جیسی چوہیاں تھی ویسی ہی ہو گئی نتیجہ اس حکایت کا یہ ہوا کہ جس کی جو اصل ہوتی ہے آخر اسی کی طرف رجوع کرتا ہے پس و الدین کیلئے یہ نہایت ضروری امر ہے کہ اپنے بچوں کو حتی المقدور بری مجلسوں سے روکیں اور ان کو ایسی مجلسوں میں نہ جانے دیں
زمانے میں صحبت بری ایک بلا ہے۔
بچو اس سے بچوں یہ قہر خدا ہے
بچائے خدا نوجوانوں کو اس سے
یہی میری نوجوانوں کو دعا ہے