”نو مور“

گزشتہ سے پیوستہ
1992ءمیں بے نظیر بھٹو جب دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم بنیں تو پی پی پی کی طرف سے وزیر بجلی و آبپاشی بنے۔ بے نظیر بھٹو کی بد گمانی ختم نہ ہو سکی اور نہ ہی ملک مصطفے کھر صاحب نے ان کو دل سے قبول کیا۔ اس کا فائدہ صرف اتنا ہوا کہ ضلع مظفر گڑھ میں کچھ نہ کچھ ترقیاتی کاموں کا پہیہ چل پڑا۔ ملک مصطفے کھر کے دو صاحبزادے ملک عبدالرحمان کھر اور بلال کھر صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے۔ ملک عبدالرحمان کھر کو صوبائی وزیر خوراک بنایا گیا تھا۔ جلد ہی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔ اورملک بے نظیر بھٹوکے عین خدشات کے مطابق بے وفائی کر گئے اور نگران سیٹ اپ کا حصہ بن گئے اور پانی و بجلی کے وزیر بنادئیے گئے ۔اس دفعہ بے نظیربھٹو کے ساتھ پھر دھوکہ ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو نے ان کو صدر بنایا تھا اور اسی نے ہی حکومت ختم کر دی۔ بے نظیر بھٹو کو اس موقع پر حضرت علی ؓ کا یہ قول دھراتے ہوئے سنا گیا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو ۔ تب بے نظیر بھٹو نے کہا تھاکہ پی پی پی پر جیسا بھی برے سے برا وقت کیوں نہ آئے، ملک غلام مصطفی کھر اب ان کے لیے،، نو مور ،،۔ دوبارہ الیکشن ہوئے جس میں پی پی پی ہار گئی۔ بے نظیر بھٹو اب اپوزیشن لیڈر بن گئیں۔ حکومت نے ان پر اوران کے شوہر پر بے شمار مقدمات قائم کیے۔ آصف علی زرداری کو جیل میں ڈال دیا گیا اور بے نظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے ملک سے باہر چلی گئیں۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کردیا گیا، ان پر مقدمات بنے اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ سعودی عرب کی سفارش پر میاں نواز شریف کو ملک بدر کر دیا گیا۔
2002 ءمیں الیکشن ہوئے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن اپنے لیڈرز کے بغیر الیکشن لڑے۔ مسلم لیگ ق کے پاس سادہ اکثریت تھی۔ پی پی پی کے ممبران توڑ لیے اور ان کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ اس الیکشن میں ملک غلام مصطفی کھر تو ہار گئے لیکن سر دار فاروق خان ملت پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ سردار صاحب بھی حکومت کے اتحادی بن گئے اور حکومت میں شامل ہو گئے۔
2008ءکے الیکشن میں بھی ملک غلام مصطفی کھر اپنے بیٹوں سمیت ہار گئے۔ درمیان میں جمشید دستی نے استفعیٰ دے دیا اور دوبارہ الیکشن لڑا ۔ اس دفعہ ان کا مقابلہ ملک غلام مصطفی نے کیا اور بری طرح ہار گئے۔ پی پی پی کی حکومت نے یہ پانچ سال پورے کیے ۔ لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمپین کے دوران بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔
ملک غلام مصطفی کھر شکار کے بہت شوقین ہیں اور بہت بڑی شکار گاہیں قائم کر رکھی ہیں ۔ بہت بڑی زمین کے مالک ہیں،ان کی زمین مظفر گڑھ ، نارووال، شکر گڑھ او ر لاہور انڈین بارڈر کے قریب ہے۔ لاہور میں بھی بہت بڑے بنگلوں کے مالک ہیں۔ غالباََ 2008ءسے علامہ طاہرالقادری کی جماعت سے منسلک ہیں۔ ان کے احتجاجی دھرنوں میں دکھائی دیتے رہے، چاہے وہ پی پی پی کی حکومت کے دوران تھے یا میاں نوازشریف کے دور حکومت میں ۔ کبھی کبھار ان کے بیانات اخباروں میں پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ لگتا ہے اب ان کا طاہرالقادری کی جماعت سے دل بھر گیا ہے۔ ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف جھکاﺅ کے آثار معلوم ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ ان کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں یا نہیں؟ البتہ حلقہ میں پی ٹی آئی کے لوگ بہت بڑے پیمانے پر ان کی مخالفت کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی نجی زندگی کے متعلق بڑے بھونڈے انداز میں بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ ان کی نجی زندگی کو ڈسکس کرنا غلط بات ہے۔ باقی رہا ان کا سیاست میں آنا تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ انہوں نے علاقے کی خوب خدمت کی ہوئی ہے۔ ایک فقرہ یہ ہر تقریر میں بولتے تھے کہ جب تک دھوتی اور پگڑی والے لوگ زندہ ہیں مجھے کوئی نہیں ہرا سکتا۔ سچ پوچھیں ! علاقے کے لوگوں نے بھی ا ن کا مان رکھا۔ ان کو شیر پنجاب کا خطاب بھی حلقے کے عوام نے ہی دیا اور بڑے مارجن سے الیکشن جتواتے رہے ہیں۔ پھر ایسا وقت بھی آیا جب لوگ نظر انداز کیے جانے لگے۔ ملک صاحب زیادہ وقت اسلام آباد اور غیرملک رہنے لگے۔ پیچھے بیٹے ا وربھائی ہوتے تھے۔ انہوں نے حلقے کی عوام پر کوئی توجہ نہ دی۔ ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سسٹم میں کچھ نئے لوگ شامل ہو گئے اور وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب موجودہ صورت حال میں ان کا اور ان کی ٹیم کا لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میںبڑا طویل وقت درکار ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن