جنیوا کا منظر، ممنون کا منتر اور دل مضطر

پھر ڈھاک کے تین پات کی صحیح گھات نہیں لگائی جا سکی، پھر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو کھٹائی میں ڈالنے والے بھارت کے فرسودہ اور بے ہودہ موقف کا تعاقب نہ کیا جا سکا، جذبوں میں خروش نہ ہو تو لہجوں کا جوش کسی کام نہیں آتا اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب مقصد اور مدعا کا اخلاص کسی تلچھٹ کی مانند پیندے میں بیٹھ جائے اور جذبات جھاگ کی مانند سطح آب پر ابھر آئیں۔ یہ خرابہ اس وقت اور بھی تلخابہ بن جاتا ہے جب مسئلے کی اہمیت و افادیت سے آشنائی دل و دماغ میں نہ سمائی ہو۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں بھارتی مندوب امیت کمار وہی گھسی پٹی اٹوٹ انگ کی رٹ لگا کر بھارت پدھار گیا، مجھے یقین کامل ہے کہ یہ اٹوٹ انگ بھارت کا انگ انگ تڑوا کر آزادی سے ہم کنار ہو گا (ان شاءاللہ) پاکستانی مندوب کو اٹوٹ انگ کا جواب شہ رگ دینا چاہیے تھا۔ زاہد حامد نے اٹوٹ پر اعتراض تو کیا مگر اسے اپنی شہ رگ بتانے سے احتراز کرتے ہوئے متنازعہ علاقہ قرار دیا۔ اس لئے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ زاہد حامد نے اقوام متحدہ کے وعدہ فراموش بلکہ عہد شکن ہائی کمشنر کو وہ وچن بھی یاد دلایا جس کے مطابق اعلان کیا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی تحقیقات کے لئے خصوصی مشن بھیجا جائے گا۔ اگرچہ اس یاددہانی کا اقوام متحدہ کی یادداشت پر دیرپا تو کیا عارضی اثر بھی نہیں ہو گا کیونکہ یہ اقوام متحدہ کی بے اعتنائی اور بے مروتی ہی تو ہے کہ مسئلہ کشمیر آج تک اس کی چشم التفات تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ آبشاروں اور بہاروں کا دیس اب آزاروں اور خاروں کا وطن بن چکا ہے۔ وہ جو جنت سے مشابہ تھا اب اذیتوں اور مصیبتوں سے مماثل ہے۔ ظلم کی کتنی راتیں بیت چلیں، امن و آشتی کی سحر طلوع ہونے میں نہیں آ رہی۔
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
انتہائی سبک خرام اور سبک رفتار ممنون حسین کے گزشتہ ہفتے کے بیانات نے تو میرا دل ہی اینٹھ لیا ہے، آپ بھی پڑھیں اور سردھنیں کہ کیسے کیسے الفاظ منصہ شہود پر آئے ہیں، کہتے ہیں.... ”مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کا حل ہی دنیا میں امن کا باعث ہے.... بھارت مسئلہ کشمیر حل کرے.... کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل نکالا جائے....“ یہ سارے حکمت آفریں بیانات تو کچھ بھی نہیں، ان کی ایک پیش گوئی نے تو میرے تخیل، گیان اور حواس خمسہ کو حیرتوں کے بھنور اور گرداب میں لاکھڑا کیا ہے۔ ممنون حسین کہتے ہیں ”اگلے ایک عشرے میں دنیا میں اہم تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں ان تبدیلیوں کے نتیجے میں فلسطین اور کشمیر کے مسائل حل ہو جائیں گے“۔ یہ تبدیلیاں کیسی ہوں گی .... کیوں کر آئیں گی.... ان کا شان نزول کہاں پر ہو گا.... اتنی پراسرار بات کی کچھ تو نقاب کشائی بنتی تھی۔ یوں پانی میں مدھانی مار کر دور کی کوڑی لانے سے کشمیریوں کے زخموں کی رفوگری ہو سکتی ہے نہ اہل پاکستان کے سینوں میں آس اور امید کی شمع فروزاں کی جا سکتی ہے۔ خبر نہیں یہ ممنون حسین کے کس ”منتر“ کی کرشمہ سازی ہے کہ اگلے دس سالوں میں یہ دو بڑے مسائل خود بہ خود حل ہونے جا رہے ہیں۔ آخر کچھ تو اس باکمال اجمال کے حسن و جمال سے پردہ اٹھائیے تاکہ ہمارے دل سوختہ کو شانتی ملے۔ ممنون حسین کے اس بیان سے سوالات کا ایک جتھا میرے اردگرد آ کھڑا ہوا ہے کہ کیا ممنون کی اس بشارت سے آسیہ اندرابی مطمئن ہو سکے گی؟ کیا صدر پاکستان کی اس نوید کے بعد یاسین ملک کے من کو قرار مل جائے گا؟ کیا سید علی گیلانی اور مسرت عالم بٹ اس ”مژدہ جاں فزا“ پر مسرور ہو جائیں گے؟ کیا صدر پاکستان کی اس نوید پر ایک لاکھ سے زائد شہداءکے ورثا کو یقین کر لینا چاہئے؟ کیا 107603 یتیم بچوں کو ممنون حسین کی اس نئی نویلی خوش خبری پر اعتماد کر لینا چاہئے؟ کیا حراست کے دوران لاپتا ہو جانے والے آٹھ ہزار کشمیریوں کے اعزہ و اقربا کو صدر پاکستان کے اس مژدے پر اعتبار آ جائے گا؟
بھارت، مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے قائدین کو قید و بند کی صعوبتیں دے رہا ہے جبکہ پاکستان میں کشمیریوں کے مسیحاﺅں اور نام لیواﺅں کونظر بند کر کے کشمیریوں کو آئندہ دس سالوں میں ہونے والی تبدیلیوں کی پیش گوئی کے رحم و کرم پر چھوڑا جا رہا ہے۔ یہ مماثلت پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں کی دوستی کی غماز نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم کتنی بار اعادہ کر چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے مگر اقوام متحدہ کو اپنی کوئی قرارداد یاد ہی نہیں۔ نئے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے بھی ہمیں یقین دہانیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ کیا ہم اتنا سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ سوڈان میں راتوں رات اقلیتوں کو حقوق دے دیے جاتے ہیں مگر جموں و کشمیر میں اکثریتوں کو بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ آج کشمیر ظلم و جبر سے اٹا ہے۔ 70 سال ہونے کو آئے سفاک اور قزاق بھارتی فوج کشمیر کے چپے چپے کو برباد کرنے میں لگی ہے۔ کوئی ایک بھی ایسا خاندان نہیں جو بھارتی فوج کے ظلم کا نشانہ نہ بنا ہو۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں گنگ ہیں۔ اقوام متحدہ خراٹے لے رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی کارستانی نے مسئلہ کشمیر کو تماشا بنا دیا ہے۔ ہمارا سیاسی ٹولہ پانچ فروری کے قریب دوچار اخباری بیانات داغ کر پھر لمبی تان کرسو جاتا ہے۔ کیا اپنی موت و حیات کے مسئلے میں اتنی غیرسنجیدگی برتی جاتی ہے؟
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن