لاہور(حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس)وقت نیوز کے پروگرام گیم بیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا تھا کہ بحیثیت چیف ایگزیکٹو ماجد خان صرف شک کی بنیاد پر کرکٹرز کو قومی ٹیم سے دور رکھنا چاہتے تھے چئیرمین کی حیثیت سے میرا موقف یہ تھا کہ جب تک کسی بھی کرکٹر کیخلاف ٹھوس ثبوت یا شواہد نہ ہوں اور کوئی مجرم ثابت نہیں ہو جاتا اس وقت تک انتہائی قدم اٹھانا مناسب نہیں ہے۔1999 کے عالمی کپ میں برطانیہ میں پاکستان ٹیم کی بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم کے ہاتھوں شکست آج تک ہضم نہیں ہوئی میں اسے ایک مشکوک میچ سمجھتا ہوں۔ ٹاپ اور ورلڈ کلاس کرکٹرز کی موجودگی میں کمزور ٹیم کیخلاف ناکامی شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھیل میں کرپشن کو ختم یا کم کرنے لیے کبھی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے۔ پاکستان سپر لیگ میں سامنے آنیوالے سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں بھی اصل معاملہ کو دبائے جانیکے امکانات موجود ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے اقدامات سے بھی تسلی بخش نہیں ہیں اگر دو کھلاڑیوں کو ایونٹ کے دوران ہی واپس بھجوایا گیا ہے تو جو لوگ انکے ساتھ تھے ان کے بارے میں کرکٹ بورڈ نے کیا اقدامات کیے ہیں ابھی تک کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آ سکی۔سابق چیئرمین مجیب الرحمن نے کرکٹ میں کرپشن کےخلاف سخت ایکشن نہ کرنیکی بنیاد ڈالی اسکے بعد آنیوالے تمام سربراہان بورڈ نے بھی نرمی والا رویہ اختیار کیا۔ نوے کی دہائی میں جب میچ فکسنگ خاصی سنگین صورتحال اختیار کر گئی تھی۔ ماضی میں ڈومیسٹک کرکٹ کے ایک میچ میں سلیم ملک کی کپتانی میں کھیلا گیا میچ خاصا مشکوک تھا ۔ان دنوں میچ کی حد تک تو نہیں جانتا لیکن دیگر معاملات میں خاصی مضحکہ خیر باتیں سننے کو ملتی ہیں۔وزیر بین الصوبائی رابطہ کا بیان حکومتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے ریاض پیرزادہ کیمطابق دو ڈاٹ بال کھیلی ہیں کوئی قتل تو نہیں کیا۔ اسطرح کا طرز عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ کرپشن ہمارا ایشو نہیں ہے۔ 2010 میں سپاٹ فکسنگ میں سزا پانے والے کھلاڑیوں کے خلاف پاکستان کرکٹ بورڈ نے کوئی کارروائی نہیں کی ملک کو بیچنے کی کوئی سزا انہیں پی سی بی کیطرف سے بھی ملنی چاہیے تھی۔