ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو ، اشرافیہ اورچوہدری نثار علی خان

چوہدری نثار علی خان نواز شریف کابینہ کے گنتی کے چند وزراء میں سے ایک ہیں جن کا ’’نظریاتی قبلہ ‘‘ درست ہے وہ کرپشن کے بارے میں ’’زیرو ٹالرنس ‘‘ رکھتے ہیں اور وہ پچھلے 4 سال سے کرپشن کے خلاف ’’جہاد ‘‘ میں مصروف ہیں جہاں بھی انہیں کرپشن کی بھنک ہے وہ پوری مشنری کو متحرک کر دیتے ہیں اگرچہ سی ڈی اے براہ راست وفاقی وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ نہیں لیکن اس ادارہ میں کرپشن کے خلاف افسران کو پس پردہ ’’ضدی ‘‘ وزیر چوہدری نثار علی خان کی پشت پناہی حاصل ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف پوری قوت سے ہی ڈٹے ہوئے ہیں ان ہی میں ایک دیانت دار افسر عامر احمد علی بھی جس نے ’’اشرافیہ ‘‘ کے دبائو کی پروا کئے بغیر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹوئن ٹاور (ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو) کی غیر قانونی تعمیر پر لیز منسوخ کر دی ، گذشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو کیس میں سی ڈی اے کے حق میں فیصلہ سنا دیا لیکن لیز منسوخ کرنے والا افسر پروموشن کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے ۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہ اس فیصلے نے بلا شبہ ملکی عدلیہ کا وقار بلند کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں بشمول نوجوان وکلاء کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے جو آج بھی حصول انصاف کی خاطر جستجو کر رہے ہیں اس بات پر قوی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں ابھی بھی میرٹ موجود ہے،بلا شبہ اس ساری کاوش کا کریڈٹ بجا طور پر وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو جاتا ہے جنہوں نے یکسوئی سے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ جس طرح انہوں نے ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو کیس کو فالو کیا اور پچھلے دو سال میں دبائو کا مقابلہ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے چوہدری نثار علی خان کا کردار قابل تحسین ہے دو سال قبل ایک اچھی شہرت کے مالک افسر سے انکوائری کا آغاز کیا گیا لیکن انکوائری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے عجب مناظر دیکھنے میں آئے ایف آئی اے سے انکوائری روکنے کے لئے حکم امتناعی حاصل کر لیا گیا جس سے انکوائری آگے نہ بڑھ سکی 5 نامور وکلاء اور پس پردہ کئی شخصیات آڑے آگئیں کوئی نامور وکیل سی ڈی اے کی جانب سے کیس لینے کے لئے تیار نہ تھا جس کے باعث وفاقی وزیر داخلہ کے بھانجے کاشف ملک نے فالتو فیس کی وصولی کے بغیر کامیابی سے کیس لڑا یہ بات قابل ذکر ہے ملی بھگت سے سی ڈی اے کیس میں تعاون نہیں کر رہی تھی لیکن وزیراعظم محمد نواز شریف کی سپورٹ نے سی ڈی اے کو عدالت عالیہ میں تمام شواہد پیش کر نے پر مجبور کر دیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جو پچھلے دنوں صاحب فراش تھے کو علاج کے دوران اچھی خبر ملی تو ان کی خوشی دیدنی تھی کیونکہ ان کی دو سال کی محنت رنگ لائی تھی ایسا لگتا تھا ہر سو انصاف کا راستہ روکا جارہا ہے اہم عہدوں پر فائز شخصیات نے چوہدری نثار علی خان سے5منٹ کی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن انہوں نے ملاقات کے لئے وقت دیا اور نہ ہی کیس کے وکیل کاشف چوہدری ملاقات پر آمادہ ہوئے ۔ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو کیس کی تفصیلات جہاں ایک طرف نہایت حیران کن اور چشم کشا ہیں وہاں یہ کیس ملکی نظام میں موجود ان خامیوں کی بھی نشاندہی کرتاہے کہ کس طرح اثر و روسوخ اور سیاسی بل بوتے پر قوانین کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی روش اس ملک میں جڑیں پکڑ چکی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ قومی مفادات کو ذاتی مفادت کی بھینٹ چڑھانے کے اس عمل میں سرکاری، غیر سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹر ؔ’’ایکا‘‘ کئے نظر آتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر وفاقی وزیرِ داخلہ اس کیس میں ذاتی دلچسپی نہ لیتے اور یکسوئی سے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم نہ کرتے تو یہ کیس کب کا فائلوں کی نذرہو چکا ہوتا۔ جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد سے ملحقہ وفاقی دارالحکومت کی بیش قیمت اور مرکزی زمین پر گرینڈ حیات فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیر اور اس سے جڑے معاملات سے متعلقہ ایف آئی اے کی انکوائری میں یہ انکشاف ہوا کہ مبینہ ساز باز، ملی بھگت اور دھوکہ دہی سے ملکی خزانے کو تقریباً20 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ وفاقی وزارتِ داخلہ کی ہدایت پر میگا کرپشن کیس کے خلاف جب ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات تیز کی گئیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سلسلے میں تحقیقات روکنے کے لئے درخواست دائر کر دی گئی ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو کیس میںجہاں ایک طرف مالی بے ضابطگیوں کی ایک شاہکار مثال سامنے آئی وہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ملی بھگت سے تعمیر ہونے والی اس عمارت اور اسکی بلا روک ٹوک خرید و فرخت سے وفاقی دارالحکومت کی سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے تھے مگر اس وقت کے حکمرانوں اور اربابِ اختیار نے اس پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا اور قومی مفادات کے تحفظ میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ون کانٹسی ٹیوشن ایوینیو کا پلاٹ 2005 میں پچہتر ہزار روپے مربع گز کے حساب سے بی این پی نامی کمپنی کو ننانوے سال کیلئے لیز پر دے دیا گیا۔ درحقیقت بی این پی پرائیویٹ کمپنی نے نیلامی کے عمل میں حصہ ہی نہیں لیا تھاایک ایسی زمین جس کی لیز کی مالیت لاکھوں روپے مربع گز تھی وہ محض ہزاروں روپے مربع گز کے حساب سے ایک کمپنی کے حوالے کر دی گئی سی ڈی اے سے طے شدہ معاملات کے تحت یہ پلاٹ جسکی کل لاگت تقریباً چار ارب اٹھاسی کروڑ سے زائد کے قریب تھی اس میں ایک فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیر اور سروس اپارٹمنٹس بنائے جانے تھے۔کمپنی نے بقیہ پچاسی فیصد رقم کے عوض کوئی پراپرٹی سی ڈی اے کے پاس رکھوائی اور نہ ہی طے شدہ معاہدے کے تحت پراپرٹی نہ رکھوانے تک اس بقیہ رقم کے مطابق انٹرسٹ یا مارک اپ سی ڈی اے کو ادا کیا ۔ سی ڈی اے سے معاہدے کے تحت جن سروس اپارٹمنٹس کی تعمیر ہونا تھی وہ بھی سی ڈی اے حکام کی ملی بھگت سے ختم کر ا کر انکی جگہ فلیٹس تعمیر کرنے کی منظوری حاصل کر لی گئی۔ سول ایوی ایشن کے اعتراضات اوراس معاملے کے عدالت میں جانے کی وجہ سے ہوٹل کی تعمیر مکمل نہ ہو سکی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں زیادہ سے زیادہ چھ منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت ہے لیکن ممبر پلاننگ سی ڈی اے نے ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو کو سینتالیس منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت دے دی۔ قانون کے مطابق تو یہ اجازت کابینہ کی منظوری کے بعد دی جانی چاہیے تھی لیکن حیران کن طور پر ممبر پلاننگ نے خود ہی یہ اجازت دے دی۔ جہاں تک فلیٹس ، دکانوں اوربزنس سنٹرز کا سوال ہے تو وہ بھاری قیمت پر لوگوں کو بیچے گئے اور چند انتہائی بااثر اور بارسوخ شخصیات کو بھی مفت میں نوازا گیا۔ملک کی جن اہم شخصیات نے اس عمارت میں فلیٹس خریدے ان میں ملک کی مقتدر شخصیات شامل ہیں تعمیر میں سی ڈی اے کے متعلقہ تعمیری قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں لیکن کسی کو اس کا نوٹس لینے کی توفیق تک نہ ہوئی۔ اس پورے کیس میں جہاںاربوں روپے کی کرپشن ہوئی وہاں ہر طرح کے قوانین کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ مذکورہ کیس 2011سے ایف آئی اے کے پاس زیر تفتیش تھا مگرـ بعض وجوہات کی بنیاد پر اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔ ایف آئی اے افسران کی شب و روز محنت کے نتیجے میں جب اس کیس کی گتھیاں سلجھنے لگیں تو بھر پور کوشش کی گئی کہ کسی طرح ایف آئی اے کو اس کیس کی تفتیش سے روکا جا سکے۔وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو اس کیس کے حوالے سے بہت پریشان دیکھا گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن اور غلط کاموں پر تو پوری دنیا اکٹھی ہو جاتی ہے لیکن سچائی اور حقائق کی جستجو نہایت مشکل بن چکی ہے۔ جب کوئی راستہ بند ہوجاتا تھا تو وفاقی وزیرِ داخلہ نہایت یکسوئی اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیس کی پیروی کرتے اور بالآخر دو سال کی طویل جدوجہد کیس کی ایک تاریخی فیصلے کی صورت میں اختتام پذیر ہوئی۔ ایک بار پھر اس کیس کو نیب کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی لیکن سرکاری وکلاء کی کوشش اور محنت رنگ لائی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں تاریخی فیصلہ دیا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ کا یہ بیان نہایت خوش آئند ہے کہ حکومت ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو میں پیسہ لگانے والوں کی ایک ایک پائی واپس کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا ارادہ رکھتی ہے اور فلیٹ مالکان کی مشاورت اور منظوری سے رقوم کی ادائیگی کے سلسلے میں ایک لائحہ عمل تشکیل دیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے اس’’ ٹوئن ٹاور ‘‘ کے بارے میں حتمی کیا فیصلہ ہوگا اس کے لئے ہمیں کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا۔

ای پیپر دی نیشن