اتوار کی صبح اُٹھ کر اپنا کالم لکھ کر دفتر بھیج دیا تو نواز شریف صاحب پر جوتا پھینکنے والا واقعہ ہوگیا۔ یہ واردات کرنے والے نوجوان وہی تھے جن کے ایک جذباتی ہم خیال نے ایک روز قبل خواجہ آصف کے منہ پر سیاہی پھینکی تھی۔ یہ دریافت کرتے ہوئے ہرگز کوئی خوشی محسوس نہیں ہوئی کہ میرے خدشات درست ثابت ہوئے۔ 2013کے انتخابات کے دوران طالبان کے خوف سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کے نامزدکردہ امیدوار ممکنہ ووٹروں سے بھرپور انداز میں رابطہ نہ کر پائے تھے۔ 2018میں انتخابات ہوئے تو اس بار نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے امیدوار پنجاب کے بے پناہ حلقوں میں ”لبیک“ پکارتے ہوئے نوجوانوں کی زد میں رہیں گے۔ نواز شریف سے تعلق کی بنیاد پر عوام میں جانے کے لئے اب بہت ڈھیٹ افراد کی ضرورت ہوگی۔
مسلم لیگی اپنی سرشت میں لیکن محتاط شمار ہوتے ہیں۔ خواہ مخواہ پنگے نہیں لیا کرتے۔ضرورت پڑے تو راتوں رات ”ری پبلکن“ ہوجایا کرتے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی صورت کوئی دیدہ ور نمودار ہوجائے تو ”کنونشن لیگ“ بنالیتے ہیں۔ جنرل ضیاءاجازت دےں تو ان کے چنے محمد خان جونیجو کے ہمراہ کھڑے ہوکر مسلم لیگ ”بحال“ کرلیتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں اس لیگ کو ”قاف“ بنادیا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کسی زمانے میں مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ 2002کے انتخابات کے بعد اس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے کئی افراد مگر ”پیٹریاٹ“ ہوگئے تھے۔ شاید اسی تجربے نے ”ایک زرداری....“ کو بہت زیرک بناڈالا ہے۔ بلوچستان کے ”آزاد منش“ سیاست دانوں کو دل وجان سے گلے لگارہے ہیں۔ بہت سوچ کر اختیار کی ”انشورنس پالیسی“ تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔
آج کے منظر نامے میں لیکن میری ناقص رائے میں سب سے کامیاب سیاست دان بلوچستان کے وزیر اعلی قدوس بزنجو ثابت ہوئے ہیں۔ کینیڈا سے اکثر پاکستان آکر سیاست نہیں ریاست بچانے کے خواہاں ”شیخ السلام“ اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود آصف علی زرداری اور عمران خان کو ایک سٹیج پر اکٹھے نہیں بٹھاپائے تھے۔ بلوچستان کی ڈسٹرکٹ آوران سے 500ووٹوں کے ساتھ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اس نوزائیدہ سیاست دان نے مگر معجزے برپا کردئیے ہیں۔ نواز شریف کے لگائے سردار ثناءاللہ زہری کو بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ سے فارغ کرنے کے بعد اپنی اسمبلی سے ایک نہیں دس آزاد اور محب وطن سینیٹر جمع کئے اور اسلام آباد آگئے۔ بنی گالہ اور اسلام آباد کے بلاول ہاﺅس کے درمیان آتے جاتے رہے۔ بالآخر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو قائل کردیا کہ بلوچستان کا احساسِ محرومی دور کرنے کے لئے ان کے ساتھی صادق سنجرانی کو سینٹ کا چیئرمین بنوانے کی کوشش کی جائے۔ عمران خان صاحب کو اپنی جماعت کی پارسائی پر اجارہ داری کا تاثر برقرار رکھنے کے لئے سنجرانی کی حمایت پر آمادہ ہونے میں دیر لگی۔ راضی ہونے کے بعد مگر مطالبہ یہ بھی کردیا کہ سنجرانی ہی کو چیئرمین سینٹ بنایا جائے۔ ”ایک زرداری....“ کے اس ضمن میں چہیتے سلیم مانڈوی والا تھے۔ بالآخر جھکنے پر مجبور ہوئے۔ تاثر یہ بھی پھیلایا گیا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کو سلیم مانڈوی والا اور صادق سنجرانی کے ملاپ سے بنائی گیم پسند نہیں آرہی۔ ”آدابِ فرزندی“ نبھاتے ہوئے بالآخربذاتِ خود کیمروں کے سامنے آکر صادق سنجرانی کو اپنانے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئے۔ میں یہ کالم لکھ کر تھوڑی دیر میں دفتر بھجوادوں گا۔ انتخاب سینٹ چیئرمین کا پیر کی شام تک مکمل ہوگا۔ مجھے اس کے نتائج سے ہرگز کوئی دلچسپی نہیں۔ ”سب پر بالادست“ ہونے کے دعوے دار ادارے کے ایوانِ بالا کے لئے 52نئے سینیٹر منتخب کرتے ہوئے اہل ہوس نے جوکردار ادا کیا وہ ناقابلِ برداشت حد تک گھناﺅنا ہے۔ سینٹ چیئرمین جو بھی منتخب ہوا میری نظر میں صوفی تبسم کے بیان کردہ محبت کے ان ہنگاموں کا شاخسانہ ہوگا جن کے بارے میں مصرعہ تھا:”آغاز بھی رسوائی-انجام بھی رسوائی“۔
نواز شریف صاحب پر جوتا پھینکنے کی واردات کی جانب لوٹنا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں۔ اس حقیقت پر تبصرہ نگاروں نے مناسب توجہ نہیں دی کہ یہ واقعہ جامعہ نعیمیہ میں پیش آیا۔ اس جامعہ کے بانی نواز شریف کے مرحوم والد اور پورے شریف خاندان کے نزدیک بہت معتبر شمار ہوتے تھے۔ لاہور کے چوک دالگراں سے کہانی شروع ہوئی تھی۔ جامعہ کے گڑھی شاہو منتقل ہونے کے بعدبھی جاری رہی۔ اس جامعہ میں ”اکابرین“ کی ایک کثیر تعداد کی موجووگی کے باوجود ”لبیک“ پکارتے نوجوانوں نے ہنگامہ مچادیا۔ صرف نواز شریف ہی کی تذلیل نہیں ہوئی۔ پیغام یہ بھی ملا ہے کہ راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر 22دنوں تک جاری رہے دھرنے نے فقط ریاستِ پاکستان کو جھکنے پر ہی مجبور نہیں کیا۔ ایک مسلک سے متعلق ”اکابرین“ پرمشتمل مذہبی Establishment بھی جو بہت Structured ہوا کرتی ہے اپنا رُعب ودبدبہ کھوبیٹھی ہے۔ ”روح عصر“ کے اصل نمائندہ اب علامہ خادم حسین رضوی صاحب ہیں۔ ”ہاکیوں والے“ ان کے پاس ہیں۔ انتظار اب فقط یہ کرنا ہوگا کہ دوسرے مسالک سے ”خادم رضوی“ کب نمودار ہوتے ہیں۔ ”اکابرین“ کے بھرم کی مگر ہر صورت فراغت ہوچکی۔
نواز شریف صاحب پر جوتا چلاتو ان کے مخالف ترین سیاست دانوں کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان بیانات کی بھرمارنے مجھے بلڈپریشر پر کنٹرول کی معمولی خوراک کودوگنا کرنے پر مجبور کیا۔ نیند کی گولی کھانے کے باوجود افاقہ نہ ہوا۔ تمام رات سوچتا رہا کہ ”لبیک“ کی کہانی کیسے شروع ہوئی تھی۔ اس قصے کا آغاز سب جانتے ہیں مگر اس جماعت میں اصل قوت اس بیانیے کی بدولت دیکھنے کو ملی جس نے حکمران جماعت پر الزام لگایا کہ اس نے انتخابی قوانین کو سادہ وآسان بنانے کے ”بہانے“ ایک ”حلف نامے“ سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی۔ ”حلف نامے“ کی اس تبدیلی کو تمام جماعتوں کے نمائندوں نے متفقہ منظوری فراہم کی تھی۔ الزام لگ جانے کے بعد مگر سب مکر گئے۔ عجلت میں اصل حلف نامے کو بحال کرتے ہوئے کفارہ بھی ادا کردیا۔ جوتے اور سیاہی مگر اب صرف حکمران جماعت کے نمائندوں پر پھینکے جارہے ہیں۔
اس جماعت کے تمام مخالفین دل کی اتھاہ گہرائیوںسے نون والوں کی ذلت ورسوائی کا لطف اٹھارہے ہیں۔ مطمئن ہیں کہ ”لبیک“ والوں کا غصہ نون کے لاحقے والی جماعت کے امیدواروں کے ساتھ وہی کرے گاجو طالبان نے 2013کے دوران پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ساتھ کیا تھا۔دلوں میں موجزن جذبات کو چھپاکر مذمتی بیان جاری کرنا منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگرچہ اس مقام پر ان میں سے کوئی ایک بھی یہ نہیں سوچ رہا کہ ”کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد“۔
٭٭٭٭٭
زرداری صاحب کی ”انشورنس پالیسی“
Mar 13, 2018