شاہ جی دھوپ میں بیٹھے تھے۔ انگڑائی لی اوربولے عمران خان کے وزیراعظم بننے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، بلکہ لودھراں نتیجہ کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ وزرات عظمیٰ توکیا اس بارکے پی کے بھی عمران کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے ۔ میں نے پوچھا آخروجہ کیا ہے؟ توگویا ہوئے۔ باتیں کرنے اور عمل کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بات کرنا اور اس پر قائم رہنا ضروری ہوتا ہے۔ خان صاحب نے باتیںتو بہت کیں مگرعمل کہیں نظرنہیں آیا ، اور ہمیشہ اپنے ہی نظریات کی نفی کی۔ عمران شروع دن سے سٹیٹس کو اورکرپشن کے خلاف ہیں۔ موروثی سیاست کی بھرپور نفی کرنے آئے ہیں۔ مگرانہوں نے اپنے گرد کرپٹ لوگوں کو جمع کرلیا۔ جہانگیرترین کے بیٹے کو ٹکٹ دے کر موروثی سیاست والے نظریے کی نفی کی۔ سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرکے کرپشن بارے کی گئی باتوں کی خود ہی مخالفت کردی ۔ عمران پیسے کی بجائے نظریات کے حامی تھے مگرعملی طور پر نظریاتی لوگوں کو کوسوں دور کرکے اے ٹی ایم مشینوں کو قریب کرلیا۔ حال ہی میں نظریاتی اور قابل نوجوانوں کی بجائے سینٹ کے ٹکٹ ریئسوں میں بانٹے گئے ۔ نوجوانوں کی بات کرنے والے نے کسی بھی اعلی کسی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ کم وسیلہ نوجوان کو سینٹ کا ٹکٹ نہ دیا ۔ جب عمران اپنے نظریات کو بناتے رہے توانہیں عوام میں پذیرائی ملتی رہی ، مگرجب بھی عمل کی باری آئی تووہ اپنے نظریات کی ہمیشہ بھول ہی جاتے رہے۔
شاہ جی پہلو بدلتے ہوئے لوٹے کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران میٹروکو جنگلہ بس کہتے رہے۔ اور یہ کہتے رہے کہ جنگلہ بس اور سڑکوں کی بجائے ہسپتال بنائے جاتے توبہترہوتا اور پھر خود ہی جنگلہ بس بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اور یہ کہ عمران نے سڑکیں نہ بناکر کون سے ہسپتال بنائے۔ آج بھی خیبرپختونخواہ کے لوگ پنجاب کے ہسپتالوں میں علاج کے لئے آتے ہیں۔ وہاں کوئی قابل ذکر بچوں کا ہسپتال نہیں ۔جو ہسپتال پہلے سے موجود ہیں ان کو اب گریڈ بھی نہیں کیا گیا۔
شاہ جی نے کرسی کو چھاؤں میں گھسیٹا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے عمران خان اپنی پولیس کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں تھے۔ اس کا کچا چٹھا بھی مردان کی معصوم بچی اسماء سے زیادتی کے کیس نے کھول دیا۔ پولیس کے پاس تحقیق کوئی سائنٹفک طریقہ کار نہیں ۔ ڈی این اے ٹیسٹ بھی پنجاب سے کروایا گیا وہاں یہ سہولت بھی میسرنہ کرسکے۔ شاہ جی تھوڑا رُکے اور بولے پانچ سال صوبے کی تقدیر بدلنے کے لئے کافی ہوتے ہیں ،مگرسوائے جنگلہ بس کے کوئی میگاپراجیکٹ شروع نہیں کیا جاسکا۔ بجلی کی شدید کمی تھی اورعمران نے بجلی بار ے باتیں بھی بہت کیں۔ مگرخیبرپختونخواہ میں بجلی کا کوئی قابل ذکر منصوبہ شروع نہ کرسکے ۔ شاہ جی نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران نے اپنی ساری توانائی دھرنوں پر خرچ کرڈالی اور دھرنوں میں قابل اعتراض زبان بھی خوب استعمال کی ۔ رہی سہی کسرپارلیمنٹ پر لعنت بھیج کر پوری کردی۔ پیرنی سے شادی بھی ان کی ہارکی ایک وجہ بنے گی۔
شاہ جی نے کرسی کو ایک بار پھر دھوپ کی طرف کھسکایا اور بلاول کو بھی وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہرکردیا۔ زرداری صاحب بلاول کو آگے کرکے پنجاب میں پارٹی کو متحرک کرنا چاہتے تھے جو وہ نہ کرسکے ۔ سندھ کے سوا باقی تمام صوبوں میں پیپلزپارٹی کی واجبی سی نمائندگی ہے۔ زرداری صاحب کی پالیسی پہ لگ رہی ہے کہ اگر غیبی امداد سے وفاق میں واضح اکثریت مل جائے توبلاول بھٹو کو وزیراعظم بنائیں گے جوکہ بظاہر ناممکن نظرآرہا ہے ۔ کیونکہ وفاق میں پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت ملنے کا دوردور تک کوئی امکان نظرنہیں آْتا ۔ دوسری پالیسی یہ ہے کہ اگرکسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہ مل پائے توکچھ جماعتوں کو متحد ہوکر حکومت بنانا پڑے گی ۔پھرزرداری صاحب اپنی پرانی مفاہمتی پالیسی کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور وزارت عظمیٰ کی سیٹ سنبھال لیں گے ۔ لیکن اس کے امکانات بھی کافی حد تک کم ہی ہیں۔
شاہ جی پرجوش ہوکر کہنے لگے جس چیز کو جتنا دبایا جائے وہ اتنا ہی اوپر کو اٹھتی ہے۔ نواز شریف کو بھی جتنا دبایا جارہا ہے وہ اتنا ہی عوام میں مقبول ہو رہے ہیں۔ نااہلی کے بعد جتنے بھی جلسے کئے وہ کامیاب تھے اورجتنے ضمنی الیکشن ہوئے وہ جیتے۔ خاص کرلودھراں کے نتیجہ نے توسب کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ خود نوازشریف کو بھی۔ اب ان کو پارٹی صدارت سے بھی نااہل کردیا گیا ہے ۔ ان کی پارٹی کو سینٹ الیکشن سے باہر کردیاگیا ہے۔ ابھی اور بھی کئی مقدمات چل رہے ہیں جن کے فیصلے جلد آنے کی توقع ہے۔ ممکن ہے ان کو جیل کی بھی ہوا کھانا پڑے۔ لیکن جوں جوں ان کے خلاف فیصلے آتے جائیں گے توں توں وہ عوام میں زیادہ مقبول ہوتے جائیں گے۔
نواز شریف کا بیانہ عوام میں مقبول ہورہا ہے۔ پنجاب کے علاوہ کے پی کے میں بھی ن لیگ کھویا مقام حاصل کررہی ہے ۔ نوازشریف کا بیانہ اور شہباز شریف کے مکمل ہونے پراجیکٹ مسلم لیگ ن کو وفاق میں واصح اکثریت دلادیں گے۔ اس لئے زیادہ امکان ہی نظرآرہا ہے کہ وزیراعظم ن کے لاحقے والی مسلم لیگ سے ہی ہوگا۔ میں نے پوچھا مگروزیراعظم کون ہوگا؟ شاہ جی آستین چڑھاتے ہوئے بولے ، مریم نواز کو پارٹی کے سنیئر ارکان قبول کرنے کو تیار نہیں ۔خواجہ آصف اور سعد رفیق کے علاوہ کچھ اور بھی قابل اعتماد ضرور ہیں مگرکسی کی بھی نامزدگی پر پارٹی کے تمام دھڑوں کا اتفاق ناممکن ہے۔ اس طرح پارٹی کے تقسیم ہونے کے امکانات ہیں۔ چوہدری نثار پہلے ہی فاصلہ پیدا کرچکے ہیں ۔ اس لئے وزارت عظمیٰ شہبازشریف کے حصے میں ہی آئے گی ۔
شاہ جی رکے۔ لمبا سانس لیا اور بولے برخوردار ! یہ ساری باتیں تب ہوں گی جب کوئی انہونی نہ ہو اور وطن عزیز میں انہونی کے ہروقت امکانات موجود رہتے ہیں۔ بلکہ یہاں ہونی کم اور انہونی زیادہ ہوتی ہے ۔ دعا کرو سلامت رہے۔
کون بنے گا وزیراعظم
Mar 13, 2018