عملاً اکثر مشرق وسطیٰ پر لکھتا رہا ہوں مگر قارئین کی خواہش ہے کہ اندرون ملک بھی کبھی کبھی آ جایا کروں۔ بات بہت تلخ مگر اصل یہ ہے کہ میں نے نہایت دلیری اور مستقبل بینی سے دو کام ایسے کئے جو بعدازاں مکمل درست ثابت ہوئے مگر ان دونوں ’’کارناموں‘‘ کے تجربے نے مجھے شدید ترین ذہنی تھکاوٹ‘ مایوسی اور غیر مستحق و منافق اذہان و کرداروں سے متنفر کر دیا ہے۔ پہلا کام میں نے صدر رفیق تارڑ کی موجودگی میں جبکہ عرفان صدیقی ان کے میڈیا مدارالمہام تھے عسکری حاکم نے جنرل مشرف کو ’’صدر‘‘ پاکستان بنانے کی تجویز دے کر کیا اور اس کا مکمل دفاع بھی کیا مگر تین سال بعد اقتدار پر جو ’’صدر‘‘ پاکستان کے طور پر موجود ’’جنرل‘‘ مشرف تھا وہ کاذب و جھوٹ فروش اور مکار نکلا۔ اس نے جعلی ڈگریوں کی بھی اسمبلیوں اور اقتدار میں ترویج و سرپرستی کو فروغ عظیم دیا۔ خوش نما اور مسیحائی پر مبنی بار بار وعدے کئے اور بار بار انہیں توڑ دیا۔ یہ سب دیکھ کر جنرل مشرف کو ’’صدر‘‘ بنانے کی تجویز عملاً میرے لئے ذہنی عذاب ثابت ہوئی۔
دوسرا ’’کارنامہ‘‘ جنوری 2003ء میں جنرل مشرف کے عہد فرعونی میں جدہ کے سرور پیلس میں محبوس شہباز شریف سے خود جا کر ملنا ساڑھے تین گھنٹے کی بات چیت‘ ملک و فوج اور مسلم لیگ میں اتحاد اور ان کی پاکستان آمد کے لئے جواز پر ان کا نقطہ نظر معلوم کرنا تھا۔ اس پہلی اور آخری طویل ترین ملاقات میں شہباز شریف میرے معیار فراست پر پورے اترے۔ انہوں نے میرے ساتھ ملاقات میں اتنی خوشی اور مسرت پائی کہ ذاتی طور پر مجھ سے کچھ ایسے وعدے زبانی طور پر کئے بعدازاں جو مکمل وفا نہ ہو سکے۔ شہباز شریف کو میں نے فرعونی عسکری اقتدار میں پنجاب کا متوقع وزیراعلیٰ ثابت کیا جس کی وجہ سے مجھ سے چودھری برادران‘ جنرلز‘ کچھ سیاسی اہم لیگی رفقاء بھی شدید ناراض ہوئے تب بھی میں نے ہر کمزور اور اقتدار سے محروم ہوتے شہباز شریف کی فکری و قلمی بھرپور مدد کی۔ مگر جواب میں فقیہ دانش اور قلندر فکر کو جو کچھ ماڈل ٹاؤن مقیم سے مسلسل ملا وہ ناقابل بیان ہے۔
سینٹ کے انتخابات میں کچھ اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا جو ماحول اور فضا رہی اس حوالے سے کیا نئے سینٹ کو باقی رہنا چاہئے؟ الیکشن کمشن اور بعدازاں سپریم کورٹ اگر ایسے خرید کردہ و فروخت شدہ اراکین کی بنیاد پر بننے والے سینٹ کو برداشت اور قبول کرتا ہے تو پھر ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں؟ جنرل قمر باجوہ کا رویہ‘ روش قابل تحسین ہے۔ وہ مسلسل جمہوریت کے حامی اور آئین و قانون کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں ان کا یہ کردار بہت محبوب ہے۔
اب کچھ ذکر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے اس فیصلے کا جو انہوں نے مختصر طور پر 9 مارچ کو ختم نبوت‘ قادیانیت و احمدیت کے حوالے سے کیا ہے۔ جسٹس صدیقی کے اس فیصلے کی بنیاد میرے نزدیک علامہ اقبال کے قادیانیت اور ختم نبوت کے حوالے سے 1935ء کے بعد اپنائے گئے رویئے اور مؤقف کے قریب تر ہے۔ ایک بار سینیٹر فرحت اللہ بابر کو میں نے علامہ اقبال کے اینٹی قادیانی مؤقف سے آگاہ کیا تھا تب تک انہیں علامہ اقبال کے اینٹی قادیانی مؤقف سے آگاہی نہیں تھی جو قارئین جسٹس صدیقی کے فیصلے کی روشنی میں علامہ اقبال کے مؤقف سے آگاہی چاہتے ہیں۔ انہیں شیخ عطاء اللہ پروفیسر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی مرتب کردہ کتاب ’’مکاتیب اقبال‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ علامہ اقبال کا مؤقف تھا کہ قادیانی مسلمان امت کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں اور اقتدار کے فوائد اور سیاسی مفادات کو مسلمان کندھے پر کھڑے ہو کر کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ وہ اپنی مختصر تعداد کی روشنی میں الگ امت ہونے کی بنا پر جن فوائد کا استحقاق بنتا ہو وہ ضرور حاصل کریں۔ مگر یہ فقیر قادیانیوں کو شخصی و مالی نقصان‘ ان کی جائیدادوں کو نقصان و آگ لگانے کے عمل کو دنیا اور اخلاقی طور پر ناجائز تصور کرتا ہے۔ جہاں تک پیر آف سیال شریف نے حکومت پنجاب اور رانا ثناء اللہ کے خلاف مورچہ زنی کی تھی وہ پیر آف سیال شریف کی سادہ لوحی اور عیار افراد کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کی داستان الم ہے۔ کاش پیر آف سیال کچھ مکار و عیار افراد کے جھانسے میں نہ آتے۔ یہ بہت ’’بڑا خلائ‘‘ ہے۔ دہشت گردی‘ انتہا پسندی‘ غلو‘ جہاد اور شریعت کو فساد فی الارض‘ فتنہ پروری‘ قتال مسلمانان کے جواز میں القاعدہ مبتلا تھی۔ پھر تحریک طالبان اس دینی و خارجی مرض میں مبتلا ہوئے۔ سادہ لوح مسلمان القاعدہ و تحریک طالبان کو مجاہد سمجھتے رہے مگر عملاً وہ محض مسلمانوں کو قتل کرتے رہے۔
مساجد و بازاروں میں بم دھماکے کرتے رہے۔ ایسی روش بعدازاں داعش نے بھی اپنائی ہے۔ پیغام پاکستان جو فتویٰ جاری ہوا۔ وہ تمام مکاتب فکر کے وفاق المدارس کی طرف سے ہے۔ 39 قابل ذکر علمائے کرام‘ مشائخ عظام اور مفتیان کرام نے اس پر دستخط کئے اور 1812 علماء کرام نے اس کی تائید کی ہے۔ کتابی صورت میں ’’پیغام پاکستان‘‘ کو ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی فیصل مسجد اسلام آباد سے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ضیاء الحق نے شائع کیا ہے۔ ان سے 051-2281289 پر رابطہ بھی کیا جا سکتا ہے۔جنرل قمر باجوہ نے بین الاقوامی فورم پر جہاں حقیقی جہاد کا دفاع کیا وہاں امریکی و یورپی مدد سے قتال کی حقیقت بھی کھل کر بیان کی ہے۔ پیغام اسلام متفقہ فتویٰ کو پڑھنے سے القاعدہ‘ داعش‘ تحریک طالبان جیسے گمراہ اور خارجی مؤقف رکھنے والوں کی دینی و شرعی حیثیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
اوپر میں نے جسٹس شوکت صدیقی کے ختم نبوت کے حوالے سے فیصلے کا جو ذکر کیا اس کی روشنی میں جسٹس صدیقی کے اس فیصلے کا بطور خاص ذکر کروں گا جس میں انہوں نے توہین رسالت کے جھوٹے اور جعلی مقدمے کرنے والوں کے ساتھ نمٹنے کی طرف بھی توجہ دلائی تھی۔ جناب جسٹس کا بہت بہت شکریہ۔ ہم نے ماضی میں متعدد کالموں میں توہین قوانین کو غلط‘ جھوٹ‘ ذاتی لڑائی میں استعمال کرتے عمل کو روکنے کے لئے حکومتی سطح پر قانونی بندوبست کا تقاضا کیا تھا۔ گزشتہ ہفتے سینٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں سینیٹر نسرین جلیل کی زیرصدارت سینیٹر فرحت اللہ بابر اور دیگر شرکاء اجلاس نے جھوٹے‘ جعلی‘ غلط مقدمات کرنے والے کے لئے وہی سزا تجویز کی جو توہین رسالت کرنے والے کے لئے قانونی طور پر طے شدہ ہے۔ اگرچہ بلوچستان کے مفتی عبدالستار نے اس موضوع پر بحث کو روکنے کی سعی کی تاہم سینٹ کمیٹی نے اپنی سفارشات اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دی ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے کہ مقدمہ کرنے والا وعدہ گواہ بھی ساتھ لائے تب مقدمہ درج کیا جائے۔ ہم سینٹ کمیٹی کی ان سفارشات کی مکمل تائید کرتے ہیں اور مفتی عبدالستار سینٹ کے مؤقف کو غیر حقیقت پسندانہ اور مذہبی جذباتیت تصور کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کو حق حاصل ہے کہ وہ توہین قوانین پر بحث کرے۔ جہاں سقم ہے اس کے ازالہ کے لئے قانون میں ترمیم و اضافہ کرے … جو غلط اور جھوٹ کی بنیاد پر مقدمہ درج کرائے اس کی سزا تجویز کرے۔