دو سچے بول’’سچ‘‘ کے بارے میں

Mar 13, 2018

مسرت لغاری

قارئین! آج سچ کے بارے میں دو سچے بول لکھ کر کہنا یہ ہے کہ اگر آج کے نام نہاد عقل کل انسان نے عارضی اور پرفریب دنیا کے عذاب سے اور آخرت میں جہنم کے دائمی شعلوں سے خود کو بچانا ہے تو اس کے لئے ایک ہی کارگر بلکہ میرا آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ کسی بھی وقت، کسی بھی معاملے میں، کسی بھی حوالے سے، کسی کے ساتھ بھی جھوٹ نہ بول کر آپکو دونوں دنیائوں میں سکون کی ایسی دولت نصیب ہو سکتی ہے کہ پوری عمر چین سے گزرے گی گو کہ یہ حقیقت ہے۔
سچ کا اَنت معمولی ہے
منصور کے مقدر میں دار ہے
عیسیٰ ابن مریم کے نصیب میں صلیب ہے
اور حسین ابن علی کا سرِ اقدس سر نیزہ ہے
مگر میں کہتی ہوں… نہیں ایسا کبھی نہیں تھا… ایسا ہونا قیامت تک ناممکن ہے کیونکہ سچ تو امر ہے… ابد ہے… اَنمٹ ہے، سچ آج بھی باقی ہے۔
انسانی تاریخ کے یہ جری وجود وہ تھے جنہوں نے لفظ’’حق‘‘ کو عملاً اپنے وجود سے تجسیم عطا کر دی، اُن کی سولی، ان کی دار، اُن کی صلیب اور اُن کا نیزہ، سچ کی سربلندی کی علامت ہے جب وجہ کائنات حضورؐ معبوث ہوئے تو صعوبتیں انہوں نے بھی برداشت کی تھیں مگر صرف اس لئے کہ آزمائشیوں میں سے گزر کر خود سچ سربلند ہونا سیکھ لے اور اَبدیت کے معنی میں استعمال ہو۔پھر جلد ہی کفار نے جان لیا کہ اس پاک وجود میں تو ایک انوکھا اسرار ہے۔
اُس کی آواز میں ایک الو ہی گونج ہے۔
اُس کا عمل صالح تو حد تصور سے بھی آ گے ہے۔
اُس کی پیشانی سے نور اُگتا ہے اور اس کے اندر حق کے سورج چاندوں کا ایک ہجوم گھوم رہا ہے ایسے شخص کو سچ کی خاردار راہوں پر(نعوذ باللہ) چلانے سے نہ اُن کا جسد مبارک تھکے گا، نہ سچ درماندہ ہوگا نہ حق کمزور ہوگا۔
جی ہاں یہ مقدس ہستیاں وہ تھیں جو حق کا نعرہ لگانے سے پہلے خود سراپا حق تھیں… صداقت کی مکمل تصویر اور دیانت کا اکمل مفہوم تھیں حضورپاکؐ نے انتہائی استقامت سے کالی روحوں کو اُجلا کر دیا… ان کی اندھی آنکھوں میں نورالٰہی بھر دیا… ان کے بہرے کانوں میں آسمانی کتاب کی مقدس گونج اتار دی… اور پھر جب دونوں مبارک ہاتھوں پر چاند سورج رکھ کر نعرہ حق بلند کردیا تو اپنے قلم کو اپنے سینے کے نور میں ڈبو کر دم توڑتی ہوئی انسانیت کیلئے ایک پیغام لکھ کر چھوڑ دیا… جانوروں کی کھال پر اور درختوں کی چھال پر اور فرمایا: ’’آلو لوگو اس کو دیکھو… اس کو پڑھو… اس پر عمل کرو کہ یہ میری سچی روح کی کھری وارداتیں ہیں جن کی چھاپ میں نے کھال چھال پر اتار دی ہے… یہ میرے اندر کی پاک سچائیاں اور مقدس روشنیاں ہیں جو میں نے تمہیں صراط مستقیم دکھانے کیلئے اپنے کردار کے بے داغ آئینے میں اتار کر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دی ہیں!۔اِن کو نمونہ بنا لو… اِن کو اپنالو… میرے جیسے کردار کو اپنا کردار بنا لو کہ اس آئینے کا کوئی اُلٹا سیدھا نہیں ہے… اس کی دو طرفیں نہیں ہیں… تم مجھے اندر باہر سے ایک سا پائو گے… میرے وجود سے کوئی سایہ ٔ ترتیب نہیں پاتا ہے۔اور آج میں سوچتی ہوں مجھے فخر ہے کہ میں اُس صاحبِؐ کتاب کی امت میں سے ہوں… مجھے بھی لکھنے کی طاقت عطا کی گئی ہے… میرا پیشہ علم کا نور پھیلانا ہے۔اس وقت حضورؐ نے جو دیکھا… جو محسوس کیا… وہ لکھ دیا تب جنگ حق و باطل کے درمیان تھی۔
اور آج حق، حق سے نبرد آزما ہے… ہماری کم نصیبی کہ ہم نے اُن کا فرمایا،اُن کا دکھایا اور اُن کا سنایا بھلا دیا ہے… میں نے خدا کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں اور روزِ قیامت کے حساب و احتساب سے منکر ہو گئے ہیں… یوں آج مسلمانوں کی مسلمانوں کے ساتھ جنگیں دیکھ کر روح کے زخم زیادہ گہرے ہیں… وجود کے جھگڑے، موجود ناموجود کے تنازعے اور نفسیات می پیچیدگیاں ہمارے علم و شعور سے صیقل ہو کر مزید تباہ کن ہو گئی ہیں۔میری آنکھ بھی جو کچھ دیکھتی ہے… دل جو کچھ محسوس کرتا ہے میں انتہائی ایمانداری اور سچائی سے اسے قلم کے سپرد کر دیتی ہوں کہ یہ مجھ پر میرے ضمیر کا فرض بھی ہے اور قرض بھی ہے میں نے کبھی حق سوچنے ، حق کو برتنے اور حق لکھنے سے گریز نہیں کیا ہے اور اگر حق کی سزا سولی ہے تو میں اسی کی منتظر ہوں۔
قارئین! میرے قلم کے سامنے منظر، بھدے، قابل نفرت اور ناقابل یقین ہو سکتے ہیں مگر مجھے یقین ہے میرا فوکس صحیح ہے اور اگر آپ بھی مجھے پڑھ کر یہی کچھ محسوس کریں تو یہی میری محنت کی اُجرت ہے۔ دراصل ہم ہر لمحہ جھوٹ بھرے منافقت زدہ معاشرے میں رہ رہ کر سچ سے تائب ہوتے جا رہے ہیں بطور خاص جو بات آج کل میرے لئے شدید روحانی آزار کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ عورت اپنی انتہائی تعلیم اور انتہائی آزادی کے باوجود آج بھی اپنی بے بسی کے اسی پرانے مقام پر کھڑی ہے جہاں پر وہ جہالت کے دور میں تھی… کائنات بھر کی یہ مقدس ماں جنت کو اپنے پائوں تلے رکھنے کے باوجود ہر لمحہ اپنے وجود کو تسلیم کرانے کے جہنم میں بھن رہی ہے… اور خود کو سمندر میں پڑی ہوئی سیپ سمجھنے پر مجبور ہے جو محض گہر ڈھالتی ہے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ خود گہر بھی ہے اور سمندر کی طرح گہری بھی ہے… وہ اپنی مکمل قدروقیمت کا حق رکھتی ہے۔ گہر ہونے کے باوجود پتھر تسلیم کئے جانے تک اس پر جو کچھ گزرتی ہے میری اکثر تحریریں اسی کی روداد ہیں۔قارئین! مڈل کرنے کے دوران میں نے ابدی سچ اور حق کی جستجو میں روحانی حوالے سے جستجو ہی کے عنوان سے ایک انشائیہ لکھا تھا جو اہم جریدے میں شائع ہوا۔ یہ اپنے فانی وجود کے جواز اور خدا کے تصور کی دریافت کے بارے میں میری معصوم حیرتوں کا مظہر تھا اس کے بعد روشن حیرتوں کا ایک دراز سلسلہ چل نکلا سچ مقصدحیات ٹھہرا ہے۔دعا ہے کہ رب کریم اتنی ہمت عطا فرمائے کہ اپنے اندر کی روشن رہنمائی قلم کے ذریعے سب کے سامنے لاتی رہوں ، ممکن میرے اندر سے باہر آنے والا سچ کبھی بھی کسی کو راہ دکھا سکے۔ آپ تمام قارئین سے بھی گزارش ہے کہ زندگی کو ہر لمحہ سچ کی روشنی میں گزار دیئے وقتی مشکلات اور مخالفتوں کے باوجود دین اور دنیا دونوں میں آپ سرخرو رہیں گے… انشاء اللہ!

مزیدخبریں