ہماری تاریخ میں بابا رحمتے کا کردار پہلی بار سامنے آیا ہے اس سے پہلے کوئی ’’بابائے جمہوریت ‘‘ کہلایا اور کوئی ’’قائد عوام ‘‘ اور کسی کو خادم اعلیٰ کہلوانا پسند آیا۔ طالع آزمائوں اور آمروں کی تو بات ہی کیا بھینس لاٹھی کے زور اور اشارے پر ہی چلتی ہے وفاقی محتسب اور پھر صوبائی محتسب صوبائی سطح پر انٹی کرپشن کے ادارے آڈیٹر جنرل پبلک اکائونٹس کمیٹیاں وزیراعظم معائنہ کمیشن ڈھیر سارے وزیر سیکرٹریوں کی قطار سرکاری کمپنیوں کی بھرمار لارڈ میئر بلدیاتی ادارے، اختیارات، تنخواہیں، گاڑیاں، موجیں، تعلقات کے باوجود مسائل جوں کے توں ۔بابارحمتے کا تو ایک ایک منٹ بڑا قیمتی ہے جتنا اُسے رات دن پڑھنا پڑتا ہے، شاید ہی کسی اور کو اتنا دماغ کھپانا پڑتا ہو۔ جلسوں سے خطاب کر لینا نعرے سن لینا طبعیت کو مسرور رکھتا ہے،بلڈ پریشر بھی نارمل رہتا ہے لیکن جلسے اور ووٹنگ مسائل کو جوں کا توں رکھتے ہیں۔ بابا رحمتے نے تو مجبوراً ہسپتالوں کا رخ کیا ہے وہ بھی جدھرکا بھی رخ کریں گے انہیں نئی فلم دیکھنے اور نئی کہانی سننے کو ملے گی کسی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم سے حلفاً پوچھ کر دیکھ لیں کہ کیا اسے پنشن اور بقایا جات بغیر رشوت کے خود بخود ملے ہیں۔ خود میں گریڈ 19 سے ریٹائر ہوا تھا۔ 5 اپریل کو میری ریٹائرمنٹ کو ایک سال ہو جائے گا۔ آپ مجھ سے نہ ہی پوچھیں کہ میں نے پنشن لگوانے کے لئے کیا کیا اور کئی ماہ بعد بقایا جات ملے اور آج بھی میری ایک رقم حکومت کے ذمے واجب الادا ہے۔ میری تنخواہ سے ماہانہ رقم کٹتی رہی کہ پنجاب گورنمنٹ سرونٹ ہائوسنگ فائونڈیشن مجھے ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں تیار بنابنایا گھر دے گی لیکن گھر تو کیا ریٹائرڈ لوگوں کو 2008 کے بعد آج تک نہ پلاٹ ملا نہ ہی گھر۔ ریٹائرڈ لوگوں کے ان کے گریڈ کے مطابق اربوں نہیں کھربوں روپے فائونڈیشن کے اکائونٹ میں جمع ہیں۔ سود سے جمع شدہ رقم بڑھتی جا رہی ہے بہت سے ریٹائرڈ لوگ اللہ کو پیارے ہوتے جا رہے ہیں لیکن اس فائونڈیشن کی خبر آج تک صرف اس لئے نہیں لی گئی کہ اس کی بنیاد سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے رکھی تھی۔
بابا رحمتے، اگر ممکن ہو سکے تو کسی دن اس فائونڈیشن کے دفتر کا چکر بھی لگا لیں جہاں ریٹائرڈ پروفیسر روتے اور رلتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ نیب کے لئے تو یہ آشیانہ ہائوسنگ سے بھی بڑا میگا کرپشن کیس ہے۔ بابا رحمتے کا کردار آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری، سیکرٹری وزرائ، مشیر ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹرز، سارے کمشنراور ڈپٹی کمشنر ادا کیوں نہیں کر رہے؟ سیکرٹری صبح گھر سے نکل کر سیدھا اپنے دفتر داخل ہونے سے قبل اپنے ماتحت اداروں کا رخ کیوں نہیں کرتا؟ سیکرٹری ہیلتھ ہر روز ایک ہسپتال کا وزٹ شروع کر دے تو سب کے کان کھڑے تو ضرور ہوں گے۔ اسی طرح سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ہر روز ایک کالج کا دورہ شروع کر دے تو نظام تیر کی طرح سیدھا ہو جائے گا۔ سیکرٹری اوقاف ، مزار، مسجد کا دورہ شروع کر دے تو بہت سے حقائق بے نقاب ہونے شروع ہوں گے۔ ہر ایس پی روزانہ تھانے میں دو گھنٹے بیٹھنا شروع کر دے تو لوگوں میں اعتماد اور حوصلہ پیدا ہو گا۔ تمام سرکاری افسر اپنے دفاتر کے دروازے کھول دیں گے، ہر کس و ناکس سے ملاقات کریں اس کی داد رسی کریں تو لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعا نہیں دیں گے تو اور کیا کریں گے۔ چیف ٹریفک افسر ہر روز دفتر میں بیٹھنے کی بجائے خود ٹریفک وارڈنوں کے ساتھ سڑک پر کھڑا ہو، گلیوں اور مارکیٹوں، سڑکوں کی صفائی کے ذمہ دار افسر خود عملے کو خود چیک کریں۔
اکیلا بابا رحمتے کیا کرے سارے سرکاری لوگوں کے اپنی اپنی جگہ متحرک ہونے سے ہی بات بنے گی۔ بابا رحمتے ایک جاندارکردار ہے ایک بے مثال رول ماڈل ہے جسے ہر چھوٹا بڑا صاحبِ اختیار اپنا سکتا ہے۔ یہ کردار صرف چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہی ادا نہیں کرنا۔ ہر سرکاری افسر دیکھے کہ کیا وہ بابا رحمتے کی طرح سہولتیں پیدا کرتا ہے؟ خادم اعلیٰ اپنے تمام افسروں کو یہ حکم کیوں نہیں دیتے کہ وہ کم از کم بابا رحمتے تو دکھائی دیں۔ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کا ایک دور وہ بھی تھا جب وہ ہر اتوار کو ماڈل ٹائون میں کھلی کچہری لگایا کرتے تھے اور خواجہ ریاض محمود ان کے پہلو میں کھڑے ہوتے تھے۔ عابد شیر علی کی جگہ لیسکو اور دیگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز ہر علاقے میں کھلی کچہری کا اہتمام کیوں نہیں کرتے؟ دفتروں میں قائد اعظم کی تصویر سجا لینے سے حق حب الوطنی ادا نہیں ہوتا۔ آج بابائے قوم زندہ ہوتے تو پاکستان کے سب سے بڑے بابا رحمتے ہوتے۔
بابا رحمتے کو چاہئے کہ وہ تمام صوبائی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان بلکہ ڈسٹرکٹ ا ینڈ سیشن جج صاحبان کو بھی بابا رحمتے کا کردار ادا کرنے کی ہدایت جاری کریں۔ خود نواز شریف آصف زرداری ، عمران خان ، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق ، فاروق ستار بھی تو بابا رحمتے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیا یہ اصحاب صرف چینلوں، اخبارات اور جلسوں میں اپنا درشن کرانے کے لئے ہیں۔ یہ لیڈر کیوں نہیں کھلی کچہریوں کا اہتمام کرتے؟ یہ کیوں نہیں بابا رحمتے کی طرح دل کے ہسپتال اور بڑے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے واجبات کم کرانے پر زور دیتے؟ یہ عوامی رہنما ہیں ان کے آگے بھی کوئی نہیں بول سکتا بشرطیکہ بات عوامی مفاد کی ہو۔ پاکستان کے ہر گھر ، ہر محلے ، ہر علاقے ، ہر تھانے ، ہر عدالت پر ہسپتال ،ہر سکول ، ہر کالج پر یونیورسٹی میں ایک بابا رحمتے کی ضرورت ہے۔ ہر خاندان میں ایک بابا رحمتے ہو تو خانگی جھگڑے اور طلاقیں دم توڑ دیں محلے اور شہر امن کا گہوارہ بن جائیں، عدم برداشت اور فرقہ واریت شرمندہ ہونا شروع ہو گی۔
عام پاکستانی کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کوئی کیا گیم کھیل رہا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کا سٹاک ایکس چینج کون چلا رہا ہے سیاسی شطرنج کی بہتر چالیں کون جانتا ہے رضا ربانی نے پارلیمان کے ایوان بالا سینٹ میں بابا رحمتے کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ان کے نزدیک مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور فوج سمیت ہر ادارے کا اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں انجام دینا ضروری ہے۔ مقروض قوم کا پیسہ ذاتی تشہیر پر خرچ کرنے کی بابا رحمتے سمیت کوئی بھی حمایت نہیں کرے گا۔ گلیوں کی نکڑوں پر اپنے ناموں کی تختیاں لگوانا ضروری تو نہیں۔ بزرگی، عظمت اور شہرت رکشوں کے پیچھے فلیکسوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ داتا صاحب اور علامہ اقبال کا نام لوگ تصویروں، تختیوں کی وجہ سے نہیں لیتے۔ بابا رحمتے کے دل و دماغ میں ہسپتالوں کی حالت زار، کھلے آسمان تلے سکول ، ایل ڈی اے کی سکیمیں، پیراگون، میٹرو، آشیانہ، سستی روٹی، بغیر دانش کے سکول، درجنوں کمپنیاں اور نجی میڈیکل کالجوں کی فیسیں سمائی ہوئی ہیں اور اتنی ساری سماجی ناانصافیاں اور لعنتیں ہیں جنہوں نے عام آدمی کا جینا حرام کر رکھا ہے کسی کو نہیں پتہ ہوتا کب زلزلے کی طرح پٹرول کی قیمت اور ٹماٹر مہنگا ہو جائے ’’دلوں کے وزیراعظم‘‘ اور ’’انشاء اللہ وزیر اعظم‘‘ بابا رحمتے کی باتوں پر اسی طرح کان دھریں جس طرح تلقین شاہ (اشفاق احمد) نے سید فضل شاہ ؒؒ اور بابا رحمتے کی باتوں کو بانو قدسیہ کے ساتھ مل کر ہمہ تن گوش سُنا تھا۔ گردشی قرضہ 10 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا ہے ۔فرنس آئل فراہم کرنے اور بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو ادائیگیاں ہی نہیں ہوئیں ایسے میں بابا رحمتے کیا کرے؟!