مسلم لیگ و اتحادی جماعتوں کی شکست میں متحدہ، فاٹا ارکان کا بھی کلیدی کردار

اسلام آباد (محمد نواز رضا/ وقائع نگار خصوصی) سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں آصف علی زرداری عمران خان اتحاد نے ”نادیدہ قوتوں“کی آشیر باد سے مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے چیئرمین کیلئے مشترکہ امیدوار راجہ محمد ظفرالحق اور ڈپٹی چیئرمین عثمان کاکڑ کو شکست دے دی۔ مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے امیدواروں کی شکست میں فاٹا اور ایم کیو ایم کے ارکان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق فاٹا اور ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ ہاو¿س آئے تو وہ کسی غیر مرئی قوت کے دباو¿ میں نظر آتے تھے۔ فاٹا کے ارکان پچھلے چند دنوں سے ”زیر زمین“ چلے گئے تھے وہ مسلم لیگ ن کے رہنماو¿ں سے ملنے سے گریزاں رہے۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے ارکان نے کہا کہ وہ شدید دباو¿ میں ہیں۔ کراچی اور حیدر آباد میں ان کے کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اس لئے وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ نہیں دے سکے۔ ذرائع کے مطابق جمعیت علماءاسلام (ف) نے مسلم لیگ ن سے ڈپٹی چیئرمین کی نشست کا تقاضا کیا تھا یہ نشست پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو دے دی گئی۔ شاید اس وجہ سے جمعیت علماءاسلام (ف) کے تمام ارکان نے ان کو ووٹ نہیں دیئے لیکن جہاں تک مولانا فضل الرحمان کا تعلق ہے وہ مسلم لیگ ن کی حمایت کے بارے میں کلیئر تھے۔ ممکن ہے کہ مجالس قائمہ کی چیئرمین شپ کے حصول کیلئے جمعیت علماءاسلام (ف) کے پورے ووٹ مسلم لیگ ن کو نہ ملے ہوں ۔ ایم کیو ایم نے چیئرمین کا ووٹ تو صادق سنجرانی کو دے دیا لیکن پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ بلوچستان سے مسلم لیگ ن کی سینیٹر کلثوم پروین نے آن ریکارڈ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے چیئرمین سینٹ کےلئے راجہ ظفر الحق تاہم ڈپٹی چیئرمین کیلئے پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو ووٹ دیا۔ جمعیت علماءاسلام (ف) کے 3سینیٹرز عبدالغفور حیدری، مولانا فیض محمد اور مولانا عطاءالرحمن کو مسلم لیگی سینیٹر چوہدری تنویر، آصف کرمانی اور پرویز رشید تلاش کرکے ایوان میں لائے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کو توقع سے کم ووٹ ملے ہیں۔ عام خیال تھا کہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں ہار جیت ایک دو ووٹ سے ہوگی لیکن 11ووٹوں سے شکست سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے تمام ارکان نے راجہ محمد ظفر الحق کو ووٹ نہیں دیئے۔ شکست میں جہاں ”نادیدہ قوتوں“ کا عمل دخل ہے وہاں ”بے وفائی“ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

ای پیپر دی نیشن