مستقبل کی جانب ٹھوس اقدام

پاک چائنہ اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک پاکستان کے لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شروع شروع میں 46بلین ڈالرز کے اس منصوبے کو تشکیک کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ، پھر جیسے جیسے دنیانے اسے سمجھنا شروع کیا تو اس منصوبے کی اہمیت و افادیت واضح ہوتی گئی ۔ اس منصوبے کی مالیت 62بلین ڈالرز تک پہنچ گئی۔ 2019ایسا سال ہے جہاں ابتک بہت سی منازل طے کر لی گئیں ہیں۔ سی پیک اپنے سیاق و سباق میں ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جسے اوبور کا نام دیا گیا ہے۔ اسکے تین حصے ہیں، ایک ساحلی ، دوسرا تجارتی جو کہ اس کا ضروری حصہ ہے اورتیسرا زمینی حصہ۔ یہ سرمایہ کاری 1947کے بعد پاکستان میں سب سے بھاری سرمایہ کاری ہے۔ یہ سرمایہ کاری کی بہترین شکل یوں بھی ہے کہ یہ نقد امداد کی بجائے پاکستان کی اقتصادیات کو مضبوط کرے گی، صنعتی ترقی، توانائی میں خود کفالت ، سڑکوں اور ریلوے لائنز کے جال کے ذریعے ۔ مختصراًسی پیک کا مطلب ایک معروضی راستہ ہے جس کے ذریعے تجارت کے فروغ اور تاریخی شاہراہِ ریشم کے ذریعے ہونے والی تجارت کو ایک نئی زندگی ملے گی۔ سی پیک پاکستان کی اقتصادیات کے ان تمام پہلوئوں کو نظر میں رکھے ہوئے ہے جو پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل تھے ۔سب سے پہلی رکاوٹ توانائی کی کمی تھی۔ 2017میں پاکستان کو 4500میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا۔ 2019میں پاکستان کے 8600فیڈرز میں سے 5200فیڈرز میں بجلی کی قِلت دور ہو چکی ۔ یہ بات بھی اہم ہو گی کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے پاکستان کی صنعتی پیداوار اور جی ڈی پی میں جو 2.5فیصد کمی واقع ہو گئی تھی وہ اب پوری ہو چکی ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت جو روبہ زوال تھی اس کی ضرورت کے مطابق اس اہم سیکٹر کو 10000 میگا واٹ بجلی علیحدہ سے دی جانے لگی ہے۔مستقبل کے ضمن میں جب مکمل طور پر ریلوے، صنعت ، تعمیرِ نو ، بجلی اور پیداواری صلاحیتوں کے منصوبوں پر کام شروع ہو گا تو عوام کے لیے ملازمتوں کے بے تحاشا مواقع پیدا ہوں گے۔ اگر مکمل تصویر پر نظر ڈالیں تو سی پیک کے مکمل ہونے کے ساتھ ہی انتہا پسند ی کا بھی مکمل طورپر خاتمہ ہو جائیگا۔ اگر ہم 2018کا تجزیہ کریں تو دہشت گردی کے واقعات میں ساٹھ فیصد تک کمی آئی ۔ وہ دن قریب ہیں جب ترقی کی جانب اٹھتے ہوئے پاکستانی قدم اس سرزمین کو دہشت گردی کیلئے بالکل ناقابلِ عمل بنادینگے۔ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کا سرمایہ بیرون ممالک منتقل ہو رہا تھا۔ چین کی 46بلین ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری نے بین الاقوامی برادری میں اعتماد کی فضاء کو استوار کیا ہے ۔بہت سے ممالک نے سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ گوادر پہلے ہی بے تحاشا اہمیت حاصل کر چکا ہے بہت سی بین الاقوامی کمپنیوں مثلاً موڈیز انٹرنیشنل نے پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے فیورٹ قرار دیا ہے ۔ بہت سی قومیں پاکستان کو دہشت گردی اور بد عنوانی سے تباہ حال مملکت قرار دیتی تھیں۔ اب ان کے پاکستان کے بارے میں نظریات بدل رہے ہیں یہ ایک بڑی مثبت سوچ ہے جو ترقی کی راہ میں گوادر کو ایشیاء اور پاک چین دوستی کا ایک چمکتا دمکتا ہیرابنا دے گا۔ ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ سعودی عرب نے گوادر میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کو تیل کی مد میں امداد تو دی ہی ہے لیکن اب سعودی عرب گوادر میں ایک بہت بڑی آئل ریفائنری لگانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے ۔اچھی بات یہ ہے کہ چین نے اس آئل ریفائنری کی مخالفت کرنے کی بجائے اس منصوبے کو سراہا ہے ۔اس ماہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد نے دونوں ملکوں کے اقتصادی تعلق کو نئی جہت عطا کی ہے۔ سعودی عرب 20ارب امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے ۔ یہ پاکستان میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافے کا باعث ہو گا۔ سعودی حکومت کا پاکستان کی حکومت کے ساتھ خیر سگالی جذبات کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ سعودی حکومت نے اپنی جیلوں سے 2000پاکستانی قیدیوں کو بھی رہا کر دیا ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں جیسے کہ متحدہ عرب امارات کے تاجر یہاں ٹیلی کام اور ریفائنری لگانے کا سوچ رہے ہیں۔سی پیک منصوبوں کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق سی پیک کے باعث 2030تک 10لاکھ لوگوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یقینایہ پاکستان کی ایک بہت بڑی اقتصادی کامیابی ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن