امریکہ کے مشیر برائے امور قومی سلامتی جان بولٹن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تمام تنازعات پرامن ذرائع سے حل کریں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جان بولٹن کو مزید بتایا کہ مسئلہ کشمیر کا حل طاقت سے نہیں بلکہ مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ دریں اثنا چینی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ چین پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے اور برصغیر پر جنگ کے سائے منڈلانے لگتے ہیں تو عالمی برادری خواب غفلت سے جاگتی ہے۔ امریکہ سے لے کر سکم تک سبھی ممالک ثالثی کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ جب معاملہ ٹھنڈا پڑتا ہے تو تمام محاذوں پر خاموشی چھا جاتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل ثالثی نہیں، بلکہ عالمی اداروں سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عملدرآمد میں مضمر ہے جنہیں بھارت نہ صرف تسلیم کر چکا ہے بلکہ ان پر عمل کا پابند بھی ہے۔ کیا ثالثی کی پیشکش کرنے والوں کے علم میں نہیں کہ مقبوضہ کشمیر پر سات لاکھ بھارتی فوج مسلط ہے۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ جب کشمیریوں کا خون نہ بہایا جاتا ہو۔ خونریزی کے ساتھ ساتھ کشمیریوںکو رام کرنے کے لیے تحریص و ترغیب ، بے پناہ مراعات اور بھاری ترقیاتی منصوبوں کا بھی لالچ دیا جاتا ہے لیکن کشمیری اپنے ڈیڑھ سو سالہ (اس میں ڈوگرہ راج بھی شامل ہے) مئوقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کا خطے میں امن کے لیے کردار مثالی ہے اور وہ امن کے لیے ہر قربانی دینے کوتیار ہے لیکن کشمیریوں کے مستقبل پر سمجھوتہ کر کے اُن سے دغا نہیں کر سکتا۔ ثالثی کا مطلب ہے کچھ لو ، کچھ دو۔ کم از کم مسئلہ کشمیر کی حد تک یہ فارمولا کشمیریوں کی پشت میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ عالمی برادری اگر کچھ کرنا چاہتی ہے تو وہ بھارت کو کشمیریوں کے استصواب کے حق پرقائل کرنے کی کوشش کرے۔ گزشتہ ستر سال کی خونریزی سے اُسکی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ کشمیری استصواب سے کم پر راضی نہیں ہوں گے اور یہی تنازع کشمیر کا واحد حل اور خطے میں امن کی ضمانت ہے۔