ملتان ( نوائے وقت رپورٹ) ملتان کی انسداد دہشت گردی عدالت نے کچے کے علاقے کے بدنام زمانہ چھوٹو گینگ کے سرغنہ غلام رسول اور اس کے بھائی سمیت 20 مجرموں کو 18، 18 مرتبہ سزائے موت دینے کا حکم سنا دیا۔ عدالت نے 18 سال سے کم عمر کے 2 ملزموں کو 19، 19 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی۔ ملتان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک نے چھوٹو گینگ، سیکھانی گینگ، اندر گینگ اور چگوانی گینگ سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی۔ خیال رہے کہ 20 اپریل 2016 کو راجن پور میں 23 روز تک جاری رہنے والے سکیورٹی فورسز کے آپریشن 'ضرب آہن' کے دوران چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو نے اپنے 13 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ پولیس نے وزارت داخلہ کی اجازت کے بعد ’چھوٹو گینگ‘ کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کیا تھا، آپریشن میں 7 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور 24 اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد فوج کو طلب کیا گیا تھا، جس نے 16 اپریل کو آپریشن کا چارج سنبھالا تھا۔ راجن پور کے علاقے کچی جمال کا ساحلی علاقہ، جس کی آبادی 10000افراد پر مشتمل ہے، چھوٹو گینگ کا گڑھ کہلاتا تھا، وہاں کے رہائشیوں کا گزر بسر مویشی پال کر اور کھیتی باڑی کے ذریعے ہوتا ہے۔ چھوٹو وہاں کے مقامی افراد کی مدد کرتا تھا اور اس علاقے میں کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمیاں نہیں کرتا تھا لیکن اس نے وہ علاقہ پولیس کے لیے ایک نو-گو ایریا بنا دیا تھا اور وہاں کے مقامی افراد سے چھوٹو کے بارے میں معلومات نکلوانا تقریباً ناممکن ہوگیا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق غلام رسول عرف چھوٹو ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان میں 3 سے 5 سال تک رکن صوبائی اسمبلی عاطف مزاری کے گارڈ کے طور پر فرائض انجام دے چکا ہے۔ غلام رسول نے پنجاب پولیس کے لیے 2007 تک مخبر کی حیثیت سے کام کیا اور راجن پور اور مظفرگڑھ کے اضلاع میں ڈکیتیوں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں مختلف گروہوں کی شمولیت کے حوالے سے پولیس کو آگاہ کرتا رہا۔ مقامی افراد اور پولیس کا کہنا ہے کہ چھوٹو، روجھان کے علاقے میں موجود مزاری قبیلے کی بکرانی برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ بعد ازاں نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس کے پولیس کے ساتھ اختلافات ہوگئے جس کے بعد اس نے اپنا ایک الگ گروہ بنا کر مجرمانہ سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ بعد ازاں روجھان، ڈیرہ غازی خان، سندھ اور بلوچستان سے منسلک اضلاع میں کام کرنے والے کچھ چھوٹے اور نمایاں گروپوں نے بھی چھوٹو گینگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں اشتہاری قرار دیئے گئے مجرم، چھوٹو کے قبضہ کیے ہوئے علاقوں میں پناہ لیتے تھے۔ پنجاب پولیس نے چھوٹو گینگ کے خلاف 6 سے 7 آپریشن کیے جن میں پولیس کے 30 سے زائد اہلکار جاںبحق ہوئے جبکہ گینگ کے صرف چند ہی بدمعاش مارے گئے۔