اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل)ملک بھر میں طلبا یو نینز کی بحالی کے حوالے سے سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز نے اپنی سفارشات وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کو بھجوا دی ہیں،طلبا یو نین کی بجائے تعلیمی اداروں میں سوسائٹیوںکے قیام اور سوسائیٹیوں کے منتخب صدور کے زریعے سے کونسل صدر وکابینہ منتخب کر نے کی تجویز دی گئی ہے،ہر تعلیمی ادارے میں ایک ’’سٹوڈنٹس کونسل‘‘قائم کی جائے گی،کونسل کے صدور سٹوڈنٹس کونسل کے صدر کا انتخاب کریں گے،ایک طالبعلم ایک وقت میں ایک ہی سوسائٹی کا ممبر بن سکے ،سوسائٹی ممبران اپنے صدور کا انتخاب کریں گے۔’’نوائے وقت‘‘کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز نے وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کو تعلیمی اداروں میں طلباء یو نینز کی بحالی کے حوالے سے اپنی تجاویز تحریری شکل میں بھجوا دی ہیں جس میں ماضی کی طرز سے طلباء یو نینز کی بحالی کی مخالفت کی گئی ہے جس میں طلبا اپنے نمائندوں کو انتخاب کے زریعے منتخب کر تے تھے۔وائس چانسلرز نے تجویز دی ہے کہ ہر تعلیمی ادارے کے اندر دس سے بارہ سوسائٹیاں قائم کی جائیں جو پورے ملک میں ایک ہی نام سے کا م کریں۔ان میں قرات سوسائٹی،نعت سوسائٹی،ڈیبیٹنگ سوسائٹی،سپورٹس سوسائٹی،ڈرامہ سوسائٹی،میوزک سوسائٹی،ایڈونچر سوسائٹی،سوشل ورک سوسائٹی ،لٹریری سوسائٹی ودیگر شامل ہوں گی،ایک طالبعلم ایک وقت میں صرف ایک ہی سوسائٹی کا ممبر بن سکے گا،ممبر طلبا ء اپنی سوسائٹی کا صدر اور دیگر عہدیدار منتخب کریں گے،ہر تعلیمی ادارے میں ایک’’ سٹوڈنٹس کونسل‘‘ قائم کی جائے گی سوسائٹیوں کے منتخب صدور اپنے میں سے ایک طالبعلم کو سٹوڈنٹس کونسل کا صدر منتخب کریں گے اور صدر اپنی مکمل کا بینہ انہی صدور میں سے تشکیل دے گا۔اس طرح طلباء یو نیز کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور یو نین عہدیداروں کو طلباء سے براہ راست منتخب کرانے کے دوران ماضی کی طرح پیدا ہو نے والے مسائل کو بھی کنٹرول کیا جاسکے گا،تجاویز میں کہا گیا ہے کہ نجی جامعات بھی اس طرز پر طلباء یونینز کی بحالی کو قبول کر لیں گی جبکہ اسی طرز پر سندھ مدرسہ الاسلام اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں کامیابی کے ساتھ طلبا کی نمائندگی موجود ہے ،وائس چانسلرز نے اپنی تجویز کے حق میں دلیل دیتے ہوئے سفارشات میں کہا ہے کہ جامعات میں طلباء کی تعداد ماضی کی نسبت بہت بڑھ چکی ہے جامعہ کراچی میں طلبا ء کی تعداد ساٹھ ہزار سے زائد ہے جبکہ جامعہ پنجاب میں 55ہزار سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں اسی طرح ملک کی دیگر جامعات میں بھی طلباء کی تعداد ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہے اس لیے طلباء نمائندوں کا براہ راست انتخاب بہت مشکل ہو جائے گا اور اگر براہ راست انتخاب کا عمل ہوا تو اس میں سیاسی مداخلت بھی بڑھ جائے گی جس سے طلبا کے درمیان تنازعات کے بڑھنے اور پرتشدد واقعات کا خدشہ ہے،جبکہ براہ راست منتخب باڈی وائس چانسلر پر اپنا دبائو بڑھاتی ہے اور انتظامی معاملات سے لے گر ملازمین و اساتذہ کی تقرریوں اور ترقیوں میں مداخلت کرتی ہے ۔وائس چانسلرز کی تجاویز کے بعد وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے ان کو حتمی شکل دینے کے لیے مشاورت شروع کر دی ہے۔
ہر تعلیمی ادارے میں ’’سٹوڈنٹس کونسل‘‘قائم کی جائے گی
Mar 13, 2020