صدر ٹرمپ کا حالیہ دنوں میں دورہ بھارت بھی انڈین سازشوں اور اس کی پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے خلاف سازشوں اور پالیسیوں کی ناکامی کا باعث بنا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے انڈیا میں اپنے دورے کے دوران پاکستان اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بارے میں اچھے اور عمدہ الفاظ کا استعمال کرکے انڈیا کے اندر انڈیا کے سازشی جال کو تار تار کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے انڈیا کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدے کرنے سے صاف انکار کر دیا صرف تین ارب ڈالر کے معاہدے ہو سکے ۔ انڈیا ہزاروں ارب کی اُمیدیں باندھے ہوئے تھا۔
صدر ٹرمپ نے اعلیٰ ڈپلومیسی کے ذریعے انڈیا کے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کی حمایت سے انکار کرتے ہوئے کوئی تبصرہ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس سے انڈیا کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔صدر ٹرمپ کے جوابات سُن کر انڈین صحافیوں کے منہ لٹک گئے۔ اور انڈیا کے حق میں ایک لفظ بھی صدر ٹرمپ کی زبان سے نہ سن سکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام امریکہ طالبان زمن معاہدے کی حمایت میں پوری دنیا کے ممالک کو ایک پیج پر لانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ اب تک کسی بھی بڑے ملک کی طرف سے امریکہ طالبان امن معاہدے کی مخالفت سامنے نہیں آ سکی سوائے ایران کے۔ انڈیا کی سازشوں کے خلاف یہ پاکستان کی براہ راست اور بالواسطہ بڑی کامیابی ہے۔ قطر نے بھی وزیراعظم عمران خان کا شاندار استقبال کر کے اور پاکستان کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدے کر کے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی جہت دی ہے۔ قطر نے امریکہ طالبان امن معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بہت اہم اور کلیدی رول ادا کیا ہے۔
قطر نے پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرتے ہوئے حائل رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے امن ویژن کو کامیاب بنانے کا مضبوط فیصلہ کیا اور پھر 50 سے زائد ممالک کے اہم ترین نمائندوں اور اعلیٰ شخصیات سمیت سینکڑوں وی۔ وی آئی پی لوگوں کو مہمان نوازی رہائش و خوراک کی تمام سہولتیں بہم پہنچائیں۔
اس تاریخی ایونٹ کے انعقاد کے لیے قطر کے کردار اور خدمات کو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی خدمات اور محنت کو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ یقیناً پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا امن ویژن کامیاب ہوا ہے۔ پاکستان نے اپنے دشمنوں کو کئی محاذوں پر شکست فاش دی ہے۔ پاکستان کی طرف سے اعلیٰ سفارت کاری کا کریڈٹ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ضرور ملنا چاہیے۔ انہوں نے مشکل حالات میں وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا۔ اور پاکستان کو عالمی تنہائیوں سے نکال کر شمع محفل بنا دیا۔ یہ معمولی بات نہیں بلکہ غیر معمولی اور چیلنج صورت حال تھی جسے بدلنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت تھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی شبانہ و روز محنت سے ایک مشکل صورت حال کو’’فیئر پلے‘‘ میں تبدیل کر دیااور آج پاکستان وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ’’لیڈر شپ رول پلے‘‘ کر رہا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے ’’طالبان امریکہ امن معاہدے‘‘ میں طالبان نے اپنی شرائط پر معاہدے کو تکمیل تک پہنچایا۔ طالبان نے پوری دنیا کے انتہائی اعلیٰ سفارتکاروں اور نمائندوں کی موجودگی میں معاہدے کی دستاویزات پر دستخط بطور طالبان یا بطور متحارب فریق نہیں کیے بلکہ طالبان نے ’’امریکہ طالبان امن معاہدے‘‘ پر دستخط بطور نمائندہ‘‘ امارت اسلامی افغانستان‘‘ کیے ہیں۔ امریکہ اور تمام دنیا کے نمائندوں نے ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی اور نیٹو فوجوں کی پسپائی کو قبول اور تسلیم کیا ہے۔ امریکہ نے بھی بطور فریق جنگ اپنی اور نیٹو فوجوں کی ناکامی اور پسپائی کا مکمل ادراک کرتے ہوئے۔ مزید جنگ کو امریکی مفادات کے خلاف سمجھتے ہوئے ’’امن معاہدے‘‘ پر دستخط کیے ہیں۔ اس امن معاہدے سے امریکہ کو بڑا فائدہ حاصل ہوا ہے اربوں ڈالر کا جنگی سازو سامان اور امریکی فوجی بحفاظت واپس امریکہ پہنچ سکیں گے۔ جنگی حالات میں اربوں ڈالر کا جنگی سازوسامان طیارے، ہیلی کاپٹر جنگی گاڑیاں، اور طرح طرح کا دیگر سازوسامان بحفاظت واپس لے جانا ناممکن تھا۔یہ امن معاہدے دونوں فریقوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے امن کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
قائرین محترم ! دنیا کے بڑے بڑے منجھے ہوئے سفارتکار اور بین الاقوامی ڈپلومیسی کے انتہائی بڑے ماہرین طالبان کی سفارت کاری میں اعلیٰ درجہ کی مہارت، قابلیت، اُن کے طرزعمل، اور تدبر کے معتحرف ہو گئے ہیں، طالبان کے سیاسی تدبر اور فہم کے ساتھ ساتھ اُن کی اعلیٰ درجہ کی صاف شفاف سفارت کاری نے امریکن اور یورپین یونیورسٹیز اور انسٹی ٹیوشنز کے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ بظاہر پگڑیاں سروں پر باندھے کرتے پہننے اپنی شلواروں کو ٹخنے سے اوپر رکھے اپنی جیبوں میں مسواک رکھے سادہ نظر آنے والے اور سادہ طرز زندگی گزارنے والے، سادہ خوراک کھانے والے اپنی خوش اخلاقی سے دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا لینے والے، جنہیں ماضی میں دنیا نہ جانے کیا کیا خطابات دے رہی تھی۔ وہ اتنے مہذب اور امن سے اتنا گہرا اور مضبوط رشتہ رکھتے ہیں کہ دُنیا کی مہذب قوموں کے لیڈر اور نمائندے اُن کے جذبات واحساسلت اور اُن کی تہذیب و شائستگی کے مطترف و گرویدہ ہوکر انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ طالبان نے رسول عربیؐ کی مبارک سنتوں اور آپؐ کے مبارک طریقوں کو اپنا رکھا ہے۔ دشمن قوتوں پر ان کے رعب اور دبدبے میں اسلام کو اپنے اوپر نافذ کرنے کا بڑا اثر ہے۔ طالبان الحکم للہ، والملک للہ کے علمبردار اور ترجمان ہیں۔ یہ ہی نعرہ مرشد صحافت مجید نظامی مرحوم نے سب سے پہلے روزنامہ نوائے وقت کے سرورق پر افغان صورت حال کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے بطور پیغام شائع کر کے کفریہ طاقتوں کے جابرانہ عزائم پر ضرب کاری لگائی تھی۔ اس سلوگن کو ہٹانے اور شائع نہ کرنے کے لیے اُن پر شدید دباؤ ڈالا گیا لیکن انہوں نے ہر طرح کا دباؤ اور ادارے کے مالی مفادات کی پروانہ کرتے ہوئے اس سلوگن کی اشاعت کو جاری رکھا۔ اور نوائے وقت کے صفحات کو افغانستان کی آزادی اور کفریہ طاقتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے وقف کر دیا۔ایڈیٹر محترمہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ نے اپنے والد گرامی قدر کی اس پالیسی کو آگے بڑھایا اور مضبوط بنایا ہے پوری جرأت اور بہادری کے ساتھ نوائے وقت کی روایات کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ اسلام، ختم نبوت کے تحفظ اور پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے جس طرح معمار صحافت محترم مجید نظامی مرحوم نے اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ ڈٹ کر کلبہ حق بلند کیا عزیزہ محترمہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت بھی اُسی مضبوط جرأت اور بہادری کے ساتھ کلمہ حق کا پرچم سربلند کیے آگے بڑھ رہی ہیں۔ (ختم شد)
امریکہ طالبان امن معاہدہ
Mar 13, 2020