جناب یہ تو ہونا ہی تھا۔ بھائو تائو کی سیاست ہو گی تو اس میں سود و زیاں پر واویلا کیا معنی رکھتا ہے۔ آپ انہیں ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے ڈراوے دے رہے تھے تو آپ کے پارٹی ڈسپلن کو آزمائش میں ڈالنے اور نقب لگانے کا انہیں بھی حق حاصل ہے۔ سو آپ کے آٹھ ارکان پنجاب اسمبلی وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کر کے ان کا دم بھرنے لگے۔ آپ اسے سیاسی وفاداریاں خریدنے سے تعبیر کر رہے ہیں اور وہ اسے ایسے کو تیسا گردان رہے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان تو اب اس سے بھی آگے کی بڑھک لگا رہے ہیں۔ بھئی راستہ کھل گیا ہے تو آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارا سیاسی کلچر تو ایسی بے وفائیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اس میں چھلانگیں لگانے میں بھلا کسی نے کسر چھوڑی بھی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں 80ء اور 90ء کی دہائی تو فلور کراسنگ کا شاہکار بنی رہی ہے۔ 1988ء کی اسمبلی کا وہ منظر آج بھی میری نگاہوں کے آگے گھوم رہا ہے جب اس اسمبلی کے انتخابات میں وفاق میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار ہو گئی اور پنجاب اسمبلی میں بھی دیگر جماعتوں کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی اپنے زیادہ ارکان کی بدولت حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہو چکی تھیں اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے انہوں نے سردار فاروق لغاری کو امیدوار نامزد کر دیا تھا۔ انہیں حکومت تشکیل دینے کے لئے اپنی پارٹی کے ارکان کے علاوہ مزید 20 کے قریب ارکان کی ضرورت تھی اور یہ تعداد وہ آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر پوری کر سکتے تھے مگر وہ پیپلز پارٹی کی اصولوں کی سیاست کا دامن تھام کر ایف سی سی گلبرگ لاہور والے اپنے گھر کے وسیع و عریض لان میں بس ٹہلتے ہی رہے اور یہ تصور کئے بیٹھے رہے کہ ہم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں تو آزاد ارکان خود ہی پکے ہوئے بیر کی طرح ان کی گود میں آ گریں گے مگر ان کے مدمقابل مسلم لیگ (جونیجو) کے امیدوار میاں نواز شریف اپنی پہلی وزارت اعلیٰ میں اچھے خاصے سیاسی دائو پیچ سیکھ چکے تھے۔ انہوں نے چھانگا مانگا میں ہارس ٹریڈنگ کے لئے اصطبل بنا دیا چنانچہ پنجاب اسمبلی میں منتخب ہونے والے سارے آزاد ارکان اس اصطبل میں آ کر جگالی کرنے لگے۔ صرف یہی نہیں ، پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان بھی اسی اصطبل میں جگالی کرتے نظر آئے اور اس طرح فاروق لغاری کی بنی بنائی پنجاب حکومت ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور انہیں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پڑا مگر وہ تو اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے تھے چنانچہ چند ہی ماہ بعد انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو قائل کر کے پنجاب اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا ۔ دوبارہ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور منتخب ہونے کے بعد وفاقی حکومت میں واپڈا کی وزارت کا قلمدان سنبھال لیا۔
جب 88ء کی قومی اسمبلی میں کمبائنڈ اپوزیشن (سی او پی) کی جانب سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو اس وقت پیپلز پارٹی بھی ہارس ٹریڈنگ والے میاں نواز شریف کے دائو پیچ سیکھ چکی تھی چنانچہ اس پارٹی نے سیاسی اصطبل لگانے کے لئے بھوربن کا انتخاب کیا اور اس طرح محترمہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنا دی۔ ہارس ٹریڈنگ کی مستحکم ہونے والی اسی روائت کے باعث میاں نواز شریف مسلم لیگ (جونیجو) کو ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے غالب ارکان کو اپنی جانب کھینچ کر مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھ دی۔ پھر 90ء کی اسمبلی میں اس وقت ہارس ٹریڈنگ کا عروج نظر آیا جب صدر غلام اسحاق نے 1993ء میں یہ اسمبلی تحلیل کی اور میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا تاہم پنجاب اسمبلی برقرار رکھی ۔ جہاں مسلم لیگ (ن) کے دوتہائی اکثریت والے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کے مقابل اس اسمبلی کے سپیکر میاں منظور وٹو میدان میں آ گئے اور ایسا چھو منتر لگایا کہ سرکاری بنچوں پر بیٹھے ارکان کی غالب اکثریت چھلانگیں مار کر میاں منظور وٹو کے آنگن میں چوکڑیاں بھرنے لگی۔ غلام حیدر وائیں کا تحریک عدم اعتماد میں پٹڑا ہو گیا اور منظور وٹو اسی اسمبلی میں نئے قائد ایوان منتخب ہو گئے۔ بے شک وائیں مرحوم کے ساتھ ڈٹے رہنے والے مسلم لیگ (ن) کے 45,40 ارکان نے ہائوس میں خوب اودھم مچایا اور سپیکر سعید احمد منہیس کی ڈائس کی جانب کرسیاں تک دے ماریں مگر ہارس ٹریڈنگ نے اپنا رنگ جما کر دکھایا۔
ہارس ٹریڈنگ کے یہ جلوے 96ء کی اسمبلی تک اپنی آب و تاب دکھاتے رہے اور پھر مشرف آمریت نے مسلم لیگ (ن) کے پتے ہوا میں بکھیر دئیے۔ چنانچہ اس کے کھونٹے پر بیٹھے پکھیرو اُڑ کر مشرف کے سجے سجائے کھونٹے پر آ بیٹھے۔ مشرف نے 2002ء کے انتخابات کے لئے مسلم لیگ (ق) کی تشکیل کے لئے ہلہ شیری دی تو مسلم لیگ (ن) کے سارے نامی گرامی اس کا دامن تھامے نظر آئے۔ یقیناً پیپلز پارٹی کو بھی مارشل لاء ادوار میں اپنی پارٹی کے اندر ایسی ’’جلوہ نمائیاں‘‘ بھگتنا پڑی ہیں۔ کبھی پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی شکل میں ، کبھی پیپلز پارٹی زیڈ اے بی کی شکل میں اور کبھی پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی شکل میں۔ مگر یہ تمام گروپ پیپلز پارٹی میں کوئی موثر دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ صرف پیٹریاٹ کو مشرف اقتدار میں شیرینی ملی۔ جب پیپلز پارٹی 2008ء میں دوبارہ اقتدار میں آئی تو اس کے قائد آصف علی زرداری نے آئینی اصلاحات کا بیڑہ اُٹھایا اور 18 ویں آئینی ترمیم کے لئے مسلم لیگ (ن) اے این پی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس 18 ویں ترمیم کے مسودے میں آئین کی دفعہ 63 میں بھی شق اے شامل کر کے ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی اور اس کے تحت پارٹی ہیڈ کو اختیار دے دیا گیا کہ ان کی پارٹی کا کوئی رکن اپنے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرے اور کسی دوسری پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو جائے یا اپنی پارٹی کے فیصلوں کے برعکس ہائوس میں ووٹ دے تو پارٹی ہیڈ اس کے خلاف سپیکر کو درخواست دے کر اس کی اسمبلی کی رکنیت ختم کرا سکتے ہیں۔ مگر ہارس ٹریڈنگ کی چمک نے آگے چل کر اس آئینی شق کو بھی عملاً غیر موثر بنا دیا اور حد تو یہ ہے کہ اصولی سیاست کی بنیاد پر ایک دوسرے کے کٹر مخالف بھی اپنے سیاسی فائدے کے لئے باہم شیر و شکر ہو گئے۔ میاں نواز شریف کے دور کے آخری مراحل میں انہیں جھٹکا لگانا مقصود تھا جو بلوچستان اسمبلی کے ذریعے لگایا گیا اور وزیراعلیٰ کا پٹڑہ کر کے نواز شریف کو ان کی ہارس ٹریڈنگ والی مہارت کا آئینہ دکھا دیا گیا۔ پھر سینیٹ کی 20 خالی نشستوں کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو مسلم لیگ (ن) میں پھر نقب لگ گئی اور ایک دوسرے کی مخالف پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی بلوچستان اسمبلی میں کئے گئے اپنے مشترکہ تجربے کی بنیاد پر سینیٹ میں اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لانے میں بھی کامیاب ہو گئی۔
جب اصولوں کی سیاست پر مفاہمت ہوئی تو 2018ء کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی بھی حصول اقتدار کے لئے ہارس ٹریڈنگ والے دائو پیچ لگانے میں کامیاب ہوئی اور گزشتہ سال اپوزیشن بشمول مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کو محض نیچا دکھانے کے لئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو حیران کن طریقے سے پی ٹی آئی ہائوس میں واضح طور پر عددی اقلیت میں ہونے کے باوجود یہ تحریک ناکام بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ ہارس ٹریڈنگ کی اچھوتی مثال تھی کہ ہائوس کے اندر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مجموعی 65 سینیٹروں نے ہاتھ اٹھا کر تحریک عدم اعتماد کے حق میں فیصلہ دیا مگر جب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ووٹنگ کی نوبت آئی تو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے حق میں صرف 47 ووٹ برآمد ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کیلئے یہ سیاسی شکست ہی نہیں‘ خفت کا بھی مقام تھا۔ چنانچہ ان کی پارٹی قیادتوں نے چیئرمین سینٹ کے حق میں ڈیفیکشن کی رونق لگانے والے اپنے ارکان کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا۔ ان ارکان کی نشاندہی بھی ہو گئی مگر آج تک ان کے خلاف کارروائی کی نوبت نہیں آسکی۔ تو بھائی صاحب! اگر آپ اس وقت ہی کارروائی کی نوبت لے آتے تو آج آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے حق میں ڈیفیکٹ کرنے والے اپنے ارکان کی جانب سے ڈیفیکشن کا کوئی خطرہ ہی لاحق نہ ہوتا۔ اب آپ ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے رہے ہیں تو ذرا سوچ رکھئے کہ آپ کی کارروائی کے نتیجہ میں ان ارکان کی خالی ہونے والی نشستوں پر آپ اپنے بندے منتخب کروانے میں کامیاب بھی ہو پائیں گے یا مزید سبکی آپ کے حصے میں آئے گی۔
پی ٹی آئی اس وقت اپنے اقتدار کے جوبن پر ہے۔ وہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں آپ کے بندے توڑ سکتی ہے تو ضمنی انتخابات میں بھی یہ کرشمہ دکھا سکتی ہے۔ پھر آپکے پلے کیا رہ جائے گا۔ تو جناب پہلے اپنا کتھارسس کیجئے۔ ملک میں بیٹھ کر سیاست کیجئے۔ اپنے کارکنوں اور عوام کو مطمئن کیجئے اور پھر ڈیفکیشن والوں کو مات دینے کا عزم باندھئے۔ یہ درحقیقت وہی کانٹے ہیں جو آپ دوسروں کیلئے بوتے رہے۔ اب یہ آپکے پائوں چھیدنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس ظالم‘ خودغرضانہ سیاست میں اصولوں کی سیاست بھلا کہاں پھلے پھولے گی کہ ہماری سیاست میں اصول نام کی کوئی چیز پنپ ہی نہیں پائی۔