کرونا وائرس سے چین سمیت مختلف ممالک میں ہونے والی سینکڑوں ہلاکتوں کے بعد دُنیا بھر میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ یہ وائرس پاکستان کے علاوہ اس کے ہمسائیہ ممالک ایران اور افغانستان میں بھی پھیل چکا ہے۔حکومتِ پاکستان نے کراچی اور اسلام آباد میں کرونا وائرس کے دو کیسز کی تصدیق کی ہے۔ جنہیں آئسو لیشن وارڈز' میں رکھا گیا ہے۔ ماہرین صحت اس وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کرونا وائرس کی علامات کیا ہیں؟کرونا وائرس کی علامات عام فلو کی طرح ہی ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق بخار، کھانسی، زکام، سردرد، سانس لینے میں دُشواری کرونا وائرس کی ابتدائی علامات ہو سکتی ہیں۔لیکن ضروری نہیں کہ ایسی تمام علامات رکھنے والا مریض کرونا وائرس کا ہی شکار ہو۔ البتہ متاثرہ ممالک سے آنے والے مسافروں یا مشتبہ مریضوں سے میل جول رکھنے والے افراد میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو مریض کو نمونیہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر نمونیہ بگڑ جائے تو مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ماہرین صحت کے مطابق انفیکشن سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک 14 روز لگ سکتے ہیں۔ لہذٰا ایسے مریضوں میں وائرس کی تصدیق کے لیے اُنہیں الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔صحت مند افراد جب کرونا وائرس کے مریض سے ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو یہ وائرس ہاتھ اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس انتہائی سرعت کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔لہذٰا اس وائرس میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کو بھی انتہائی سخت حفاظی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔
پاکستانی دنیا کی وہ قوم ہیں جنہیں کبھی کوئی آفت ،کوئی بیماری ،کوئی مشکل پریشان نہیں کر سکتی ۔ایک مدت تک دشت گردی سے لڑنی والی یہ قوم جہاں بہت باصلاحیت مانی گئی ہے وہیں پاکستانی قوم بہت سے معاملات میں لاپرواہ بھی واقع ہوئی ہے ۔چین میںکرونا وائرس کے نام سے شروع ہونی والی آفت نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کو اپنی گرفت میں لینا شروع کیا ہوا ہے ۔ہم دیکھ رہے تھے کہ سعودی عرب میں مقامات مقدسہ کو بھی کچھ وقت کے لیے خالی کرواکے وہاں صفائی وغیرہ کا انتظام کیا جاتا رہا اور پچھلے دنوں ہم نے دیکھا کہ یورپ کے ملک اٹلی میں حکومت نے پہلی بار شہر کے شہر بند کروادئیے ۔سکول و کالج میں چھٹی کر دی گئی ۔بتایا جارہا ہے کہ یہ کرونا امریکہ میں بھی جا پہنچا ہے ۔لیکن دور کے ملکوں میں جانے سے پہلے کرونا وائرس نے ایران کو خاص کر متاثر کیا ہوا ہے ۔حکومت چین اپنی تمام تر حکمت عملیوں کو بروئے کار لا نے کے بعد بھی ابھی تک ا س مہلک وبا پہ قابو نہیں پا سکی ہے اور چین میں ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں ہو چکی ہے ۔ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں جدید طبعی سہولتیں رکھنے والے ملک اس وائرس سے بچنے کے لیے بہت سے اقدامات کررہے ہیںتو چین کے پڑوس میں آباد میرے پیار وطن پاکستان میں ابھی تک اس موذی مرض سے بچنے کے لیے کوئی واضح اور قابل عمل حکمت عملی نہیں بنائی جاسکی ہے ۔چین سے ہزاروں میل دور بسنے والے ملکوں میں لوگوں کے زیادہ تعداد میں جمع ہونے پر پابندی لگائی جارہی ہے لیکن میرے پیار وطن میں کہیں مذہبی اجتماع میں لاکھوں فرزندان توحید اکٹھے ہونے کی نوید سنا رے ہیں تو کہیں کرکٹ میلے میں روز ہزاروں کی تعداد میں تماشائیوں کا ہجوم سٹیڈیم کی رونق بڑھانے پہنچ رہا ہے ۔اگر بات کرکٹ کی کی جائے اگر بات ملک میں امن و امان کی سہولت کی کی جائے تو کرکٹ میدانوں کو آباد ہونا بہت بڑی خوشی کی بات ہے لیکن اگر بات انسانی صحت کی کرنی ہے اور اگر بات پاکستانی عوام کو اس موذی مرض جسے دنیا کرونا وائرس کے نام سے جانتی ہے اس سے بچنے کی کرنی ہے تو ہمیں بہت جلد اہم فیصلے کرنے ہوں گے ۔میں یہ تو نہیں کہتی ہے کہ ملک میں کرکٹ یا دوسرے کھیل نہ کھیلے جائیں لیکن اس مرض سے بچنے کے لیے موثر اقدامات ضرور کیے جانے چاہیے ۔
ایران میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد ہمسایہ ملکوں نے سرحدیں بند کر دی ہیں، بین الاقوامی پروازیں روک دی گئی ہیں اور زائرین کے قافلوں کی آمد و رفت ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں سینکڑوں زائرین ایران میں پھنس گئے ہیں۔ہر سال لاکھوں پاکستانی زائرین بھی ایران جاتے ہیں۔ تہران ٹائمز کے مطابق 2018 میں صرف محرم اور صفر میں 75 ہزار پاکستانی زائرین نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ پاکستان کی طرح عراق نے بھی ایران کی سرحد بند کر دی ہے۔اب جوزائرین ایران میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے قافلے زیادہ سے زیادہ دو ہفتے کے لیے جاتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ دو ہفتے بعد جب مدت ختم ہوجائے گی تو وہ کیا کریں گے اور ان کے ایران میں قیام کا خرچہ کون برداشت کرے گا۔