ہم نہیں مانتے، ہم نہیں مانتے!!!!!!

سینٹ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ اور اس کے بعد چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا انتخاب زنگ آلود نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کوئی شک باقی نہیں ہے کہ زنگ آلود نظام کا وقت پورا ہو چکا پے۔ اسے دھکا لگانے کی بات ہے ہم کب تک دھکا لگا سکتے ہیں اس کا فیصلہ کرنا ہے۔ صرف یہ نظام ہی نہیں انیس سو تہتر کے آئین کو بھی اتنے ٹانکے لگ چکے ہیں کہ اس کی اصلی حالت ہی نظر نہیں آتی۔ دہائیاں گذر چکی ہیں لیکن آج تک اس نظام نے عوام کو دکھوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔حکومت کے نامزد کردہ صادق سنجرانی ایک بار پھر چیئرمین سینٹ منتخب ہوگئے ہیں جبکہ اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں مرزا محمد آفریدی نے مولانا عبدالغفور حیدری کو شکست دی۔ یوں ان نتائج نے اپوزیشن کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا۔ اپوزیشن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا انتخاب جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ان دنوں ملک میں جو سیاسی منظر نامہ بن چکا ہے آنے والے دن کچھ اچھے نہیں ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سیاست دانوں کا میں نہ مانوں والا رویہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں آمنے سامنے ہیں۔ اراکین سینٹ و  قومی اسمبلی یا پھر صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سے کسی کو خیر کی خبر نہیں ہونی چاہیے۔ کسی کو خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اسمبلیوں میں بیٹھے بکاؤ مال ہیں جو کل پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون یا کسی بھی جماعت کیلئے بکے ہیں جو آج پاکستان تحریکِ انصاف کے لئے بکے ہیں کل کسی اور کیلئے بک جائیں گے۔ یہ منڈی لگتی رہے گی اور عوام لٹتے رہیں گے۔ یہ زنگ آلود نظام کی سب سے بڑی خامی ہے اس کو جتنا مرضی ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے رہیں اس سے گندا پانی ہی باہر نکلنا ہے۔ ان اسمبلیوں میں بیٹھے منتخب نمائندوں کے پاس عوامی مسائل حل کرنے، ملک و قوم کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے تو وقت نہیں ہے لیکن یہ ایک دوسرے پر حملے کرنے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے، ایک دوسرے پر الزامات لگانے، غلط بیانیاں کرنے، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے بہت وقت ہے اور وہ یہ کام صبح دوپہر شام مستقل مزاجی سے کرتے ہیں لیکن ان سب کے پاس ملکی مسائل حل کرنے کیلئے وقت نہیں ہے۔ 
گذشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والی سیاسی مشق اور سیاسی بات چیت، مختلف سطح پر ہونے والے انتخابات کے نتائج کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ کوئی بھی ہارنے والی سیاسی جماعت آئندہ عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی۔ جیتنے والی کوئی بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہو گی کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکے، جو جیتیں گے ان کی جیت مشکوک ہو گی، جو ہاریں گے وہ کہیں گے کہ ان کا الیکشن چرایا گیا ہے۔ اس بحث اور تکرار سے شروع ہونے والا معاملہ انتشار کی طرف بڑھے گا اور انتشار کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ عوام سڑکوں پر ہوں گے، قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہوں گے کیونکہ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلنے والے لوگوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس یا پھر گولیاں نہیں برسائی جا سکتیں، اگر مظاہرین کو قابو کرنے یا انہیں دبانے کیلئے گولیاں چلائی جائیں گی تو اس کے نتیجے میں بڑا جانی نقصان ہو گا، تاریخ ایک مرتبہ پھر خود کو دہرائے گی اور سیاست دانوں کی اقتدار کی جنگ کا نقصان کون اٹھائے گا اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ اللہ نہ کرے ہمیں کبھی دوبارہ ان حالات کا سامنا کرنا پڑے جس کی وجہ سے ملک و قوم کو بڑا نقصان برداشت کرنا پڑے۔ لیکن یہ بات طے ہے سیاستدان عوام کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ لوگ خود اس زنگ آلود نظام کے حوالے سے کہیں گے کہ ہم نہیں مانتے، ہم نہیں مانتے، شاعر انقلاب حبیب جالب نے تو لکھا تھا کہ میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا لیکن مجھے یقین ہے کہ سیاست دان عوام کو مجبور کریں گے کہ وہ اس زنگ آلود، فرسودہ، کرپٹ نظام کیخلاف کھڑے ہوں گے۔ ملک لوٹنے والوں کا گریبان ہو گا جیسے آج عوام کو گھسیٹا جا رہا ہے مستقبل میں عوام سیاست دانوں کو گھسیٹتے دکھائی دیں گے۔ اگر سیاست دان یہ چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو تو پھر انہیں اپنا طرز عمل، طرز سیاست اور طرز فکر بدلنا ہو گا۔ سیاست دانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ ملک صرف چند سو نام نہاد منتخب نمائندوں کا ملک نہیں ہے بلکہ یہ بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔ اس ملک پر اتنا ہی حق ایک مزدور کا بھی جتنا ایک رکن قومی اسمبلی کا ہے۔ سیاست دانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ عدم برداشت، نفرت، غصہ اور تعصب قوموں کیلئے زہر قاتل ہے۔ ہم ماضی میں ان جذبات کی وجہ سے بے پناہ نقصان اٹھا چکے ہیں۔ ہم وہ بدقسمت ہیں جو اپنا آدھا ملک گنوا چکے ہیں، ہم وہ بدقسمت ہیں جو آج بھی ملک کے قیام پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں، ہم وہ بدقسمت ہیں جو آج بھی اپنے ملک سے زیادہ دیگر ممالک کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ہم یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہم نے ملک کو کیا دیا ہے۔ ملک کو دینے کی بات ہو تو اس میں حکمران طبقہ نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہے ہیں جو بے لوث کام کرنے کے جذبے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے جنہوں نے بے لوث کام کرنے کے جذبے کو آگے بڑھانا ہے وہ ہر وقت لوٹ مار کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
یہ نظام اپنا وقت پورا کر چکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سینٹ میں کیمرے کس نے لگائے اور کیوں لگائے تمام سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو مل بیٹھ کر حل کرتیں لیکن سب کے لئے مسائل حل کرنے سے زیادہ اہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہے اور یہ کام زور و شور سے جاری ہے۔ سینٹ انتخابات ہو چکے کیا اب آئندہ عام انتخابات کو  بہترین انداز میں کرانے کیلئے حکومت اور اپوزیشن مل کر قانون سازی کی طرف بڑھتی ہیں یا نہیں اگر یہ کچھ نہیں کریں گے تو وقت بہت بے رحم ہے وہ کسی کو معاف نہیں کر سکتا۔ یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف رہیں گے اور وقت بدلتا جائے گا۔ یہاں سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ طلال چودھری بلاول بھٹو زرداری کو طنز کر رہے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری اس کا جواب بھی دے رہے ہیں۔ اگر سینٹ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تو پھر عام انتخابات کے نتائج کون تسلیم کرے گا۔ اگر تحریکِ انصاف ہارتی ہے تو وہ کیوں انتخابی نتائج تسلیم کرے گی ان حالات میں وہ تو دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ مسائل کھڑے کرے گی۔آخر میں شاعر عوام، شاعر انقلاب حبیب جالب کو یاد کرتے ہیں۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے 
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے 
ایسے دستور کو صبح بے نور کو 
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 
میں بھی خائف نہیں تخت دار سے 
میں بھی منصور ہوں کہ دو اغیار سے 
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے 
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو 
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو 
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو 
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو 
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو 
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں 
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں 
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں 
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر 
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
جو بھی حکومت میں ہو یا جو بھی حکمران ہوں ان سب کیلئے شاعر عوام کا یہ پیغام ہمیشہ ظلم کرنے والوں کو آئینہ دکھاتا رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن