معلم کا مقام اور تکریم

معلّم کی عزت و تکریم کے حوالے سے ہم اپنے ایک دو واقعات کاذکر کرنا چاہتے ہیں۔ جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ ایک معلّم اپنی عزت کرانے یا نہ کرانے کا خود ذمہ دار ہے۔ اگر وہ اپنا فرضِ منصبی، یعنی تعلیم و تربیت اچھے انداز میں کرے گا تو یقیناً اس کا ثمر اسے یہاں دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں تو خیرہی خیر ہے ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1999ء کا واقعہ ہے کہ فیصل ٹائون (لاہور) میں اپنی مقامی مسجد نمازِ عصر پڑھنے کے بعد باہر نکلا اور اپنے جوتے پہننے کیلئے لپکا تو مجھ سے پہلے ہی ایک صاحب میرے جوتوں کو میرے سامنے رکھ کر بولے، آپکا نام یہی ہے…میں آپکا شاگرد ہوں، اور آجکل میں ایڈیشنل اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کام کر رہا ہوں۔ کوئی دفتر کا کام ہو تو آپ مجھے حکم کریں…یہ یکطرفہ کام نہیں، ہمیشہ دوطرفہ تعلق ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی کا خیال  کرتے ہیں تو اس کا صلہ کسی نہ کسی شکل میں آپ کے سامنے آئے گا۔ گویا آج بھی معلم اگر چاہتا ہے کہ اس کی عزت و احترام ہوتو اسے ایک (DEVOTED TEACHER) بننا ہو گا بلکہ (COMMITTED TEACHER) کیلئے حالات ازخود بہتری کی طرف آئینگے۔ اسکے ساتھ ہی ’’والدین‘‘ کی عدم توجہی اور اپنے بچوں کے ساتھ (INETR ACT) کی کمی بھی ہے۔ سمارٹ فون کا زمانہ ہے۔ بچے سے لیکر بڑے کے ہاتھ میں سیل فون ہے اور گھر کے دس افراد بھی بیٹھے ہوں تو  سکوت مرگ ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر کوئی اپنے اپنے سیل فون میں مصروف ہے۔ اس سے باہمی بحث و تمحیص یعنی تبادلۂ خیالات کے فقدان نے جنم لیا ہے۔  یاد رہے!  گھروں میں دادا / دادی ، نانا / نانی اپنے پوتوں پوتیوں کی تربیت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہمارے ہاں تو خاندانی نظامِ زندگی رائج  ہے۔ گھریلو زندگی میں خاندان کا (ادارہ) ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں وہ تمام اخلاقی، سماجی اقدار، ایک بچہ اپنے خاندان کے بڑوں سے ہی لیتا ہے۔ آج اس (ادارہ) کو بھی مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ باقاعدہ تعلیم نہ ہونے کے باوجود، مائیں اپنے بچوں کی نفسیات کو خوب سمجھتی ہیں۔ بچہ مختلف طریقوں ، اپنی ضروریات کا اظہار ، اپنی ماں سے کرتا ہے، جسے ماں بخوبی سمجھتی ہے  اور ان کو پورا کرتی ہے۔ ایک پڑھی لکھی ماںایک بہترین خاندان کی ضامن ہوتی ہے۔ ایک کہاوت بھی ہے کہ ’’اگر ہم ایک بچے کو تعلیم دیتے ہیں تو ہم ایک فرد کو تعلیم دیتے ہیں، اگر ہم ایک بچی کو تعلیم دیتے ہیں تو ہم ایک خاندان کو تعلیم دیتے ہیں۔‘‘  بچیوں کی تعلیم کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جانا، وقت کی اہم ترین ضرورت جو دیہات ہو یا شہر، قرآن حکیم کی تعلیم تجوید سے لیکر ترجمہ تک لازمی قرار دی جائے۔ مزید برآں تعلیمی معیار کو پستی سے نکالنے کے لیے درج ذیل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ ٭قرآن حکیم کی تعلیم تجوید اور ترجمہ کے ساتھ۔ 
٭بچوں کی عمر کیمطابق،نصاب سازی ٭ نصاب کی تدریس کیلئے طریقۂ تدریس کیلئے اساتذہ کا تیار کرنا۔ ٭اس نصاب کا مسلسل جائزہ لیتے رہنا اور اس میں بہتری لانا۔ ٭بچوں کی تعلیمی سرگرمیوںکو بنانا۔ ٭بچوں کی عملی اخلاقی تربیت (جس میں تمام ادارے، خاندان سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اداروں کو فعال بنانا اور انکے اندر قرآنِ حکیم کی تعلیم کی ’’روح‘‘ کو زندہ کرنا۔ ٭اساتذہ کرام کو رول ماڈل ہونا۔ ان کا رول ماڈل نبی صلعم کا ’’اسوہ حسنہ‘‘ ہو۔ ٭بچوں کا قرآن حکیم سے زیادہ سے زیادہ تمسک پیدا کرنا۔ یہ بات باور کرانا کہ تمام علوم کا منبع اور سرچشمہ قرآنِ حکیم ہے۔ کم از کم 750 آیات ایسی ہیں، ’’جو عصری علوم‘‘ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ٭ ’’یکساں نصابِ تعلیم‘‘ جس میں قرآن ، سنہ، عصری علوم پر مشتمل ہو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا استحضار بھی ہو اور ’’بھکاری‘‘ بننے کی بجائے قوم اپنے پائوں پر (معاشی طور پر) کھڑی ہو سکے۔ ٭قرآنِ حکیم میں وحی کے ذریعے تعلیم دی گئی۔ اور ’’علم الاسماء ‘‘ کا ذکر بھی قرآنِ حکیم میں ہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں سورج، چاند، زمین، پرند ، چرند، درند، نباتات ، جمادات ، اور حیوانات سب کو انسان کیلئے مسخر کیا ہے اور جن و انس کو صرف اور صرف اپنی عبادت / بندگی کیلئے پیدا کیا ہے۔ ٭انسان کو عقل و شعور عطا فرمایا ہے کہ اس عقل و شعور کو استعمال میں لاتے ہوئے، کائنات کے اندر چھپے راز / خزانوں کو نکالنا کرنا ہے۔ قرآنی تعلیم کی طرف سے بڑے اشارے ملتے ہیں۔ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے۔ صراط مستقیم کو اختیار کرتے ہوئے زندگی میں توازن لانا ۔ ’’اُمتِ وسط‘‘ سے یہی مراد ہے۔ گویا متوازن زندگی گزارنا تاکہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ سے نہ بھٹکے اور زندگی میں ’’افراط و تفریط‘‘ نہ ہو جیسا کہ یہودیت اور نصرانیت میں ہوا۔ ’’دینی اور دنیوی‘‘ ہر کام کرنے کی ایک حد مقرر کی گئی ہے ، جس سے تجاوز کرنا ، ظلم ہے۔ مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپؐ کی پیروی کرتے ہوئے ، اپنے فرائض منصبی یعنی طلبہ کی (تعلیم و تربیت) کرنے میں بے لوث کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...