ہماراشماراْن اقوام میں ہوتا ہے جو پروڈیوسر نہیں بلکہ کنزیومر ہیںاگرکہیں کچھ پروڈکشن کی کوشش ہوبھی رہی ہے تو حالات اتنے کشیدہ اور سخت ہوچکے ہیں کہ کچھ پروڈیوس کرنا ناممکن کی فہرست میں شامل ہو جائیگا۔کتاب سے دوستی تو ایک عرصہ سے تقریباً منقود ہوتی جارہی ہے۔اب کتاب کی بجائے موبائل اور انٹرنیٹ نے لے لی ہے لیکن اسکے باوجود کتاب سے محبت کرنیوالوں کی اچھی خاصی تعداد آج بھی نظر آتی ہے کتاب کا دور کبھی ختم نہیں ہوسکتا اور اسے زندہ رہنا بھی چاہئے لیکن ستم یہ ہے کہ اس انڈسٹری کی طرف کسی کی نظر کرم نہیں ہورہی بلکہ نظرستم پڑتی رہتی ہے۔آئے دن کاغذ کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں نے پبلشرز کو پریشان کردیا ہے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ایک ماہ میں چھ چھ بار کسی چیز کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے لیکن بھئی اس دور میں سب کچھ ممکن نظر آتا ہے چھ تو کیا یہ فگر بارہ بھی ہوسکتا ہے جس نے عوام کے چہروں پر بھی بارہ بجا رکھے ہیں کتاب کی طرح اخبار پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعدادآج بھی موجود ہے خوشی ہوتی ہے کہ لوگ ابھی اپنی روایات سے جڑے ہوئے ہیں اس کا اندازہ مجھے اپنی ای میل سے ہوتا رہتا ہے اور خوشی ہوتی ہے کہ کالم کو پڑھ کر ای میل کرنے والوںکی اکثریت اچھی خاصی پڑھی لکھی اور اعلیٰ علم رکھنے والوں کی ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر معاملہ کچھ متضاد نظر آتا ہے لہٰذا مجھے ہمیشہ اس بات کی اْمید رہتی ہے کہ جن مسائل کو میں اکثر اپنے کالمز کا موضوع بناتی رہتی ہوں اْس سے متعلقہ ارباب اختیار ضرور ان مسائل کی طرف متوجہ ہوں گے ہر محکمہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، حساس اور فرض شناس لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ مجھے اپنے حصے کی شمع جلانی ہے اور مجھے پوری اْمید ہے کہ اسکی روشنی بہت سیلوگوں کی سوچ کو روشن کریگی اپنے کسٹمرز کا اعتماد پانا اور اس کو برقرار رکھنا آسان کام نہیں ہے لوگ جوکچھ خرچ کرتے ہیں اْس کا بہترین نعم البدل بھی چاہتے ہیں اب کتاب چھپوانے کیلئے آنیوالے کسٹمر کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے جبکہ پبلشر اْس کو یہ سمجھانے سے بعض اوقات قاصر ہوتا ہے کہ آئے دن کاغذ کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے کتاب چھپوانے کی قیمت میں اضافہ کرنا اْسکی مجبوری ہے۔ درخواست ہے کہ اس طرف خصوصی توجہ دی جائے تاکہ کتاب کی زندگی کو یقینی بنایا جائے۔ ہمیں کنزیومر ہی نہیں رہنا پروڈیوسر کی قطار میں بھی شامل ہونا ہے۔دوسرا اہم ترین مسئلہ بھی بہت حساس ہے جس کی طرف شاید بہت سے لوگوں کی توجہ نہیں جارہی۔ ہم میاں بیوی اکثر شام کو واک کیلئے نکلتے ہیں تو ٹائون میں بنے پارک کے پاس یااسکے اندر جانے کا اتفاق ہوتا ہے تقریباً ہر علاقے کے پارک میں ٹھیلے والوں نے اپنے ٹھیلے لگار کھے ہیں یہ سرکاری زمین ہے جس پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے میں نے ایسا بھی ایک پارک دیکھا جس میں سڑک پر چلنے والے ایک معمولی ہوٹل نے قبضہ کر رکھا ہے پارک میں بے شمارکرسیاں اور میزیں اپنے گاہکوں کیلئے لگائی گئی ہیں۔ایسی صورت میں یہ تو ممکن نہیں کہ علاقے کے لوگ یا بچے وہاں اپنا تفریحی وقت گزارنے کیلئے آسکیں یہ رویہ بہت تکلیف دیتا ہے کہ متعلقہ محکمہ آخر اس مسئلے سے اتنے لاعلم کیوں ہیں؟کیا انکی نظر میں یہ سب نہیں آتا کیا وہ ان پارکس کا وزٹ نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو ان لوگوں کو کس نے اتنا بااختیار کای ہوا ہے۔ہمیں تبدیلی کیلئے گورنمنٹ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور اب تو بالکل بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی امید باقی ہے لیکن کچھ معاملات جن میں ہم بااختیارہیں وہاں تبدیلی لانا تو ہمارے بس میں ہے اپنے حصے کے اختیارات جائز طور پر استعمال کیوں نہیں کررہے ہیں ایک بار پھر کسی ایسے صاحب اختیار سے گزارش کروں گی کہ خدارا ان مسائل کو معمولی نہ سمجھا جائے اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ایک دن آئیگا کہ ہمارے بچوں کے پاس کھیلنے کی جگہ بھی باقی نہیں رہے گی یہ وہ حق ہے جو ہم خود اْن سے چھین رہے ہیں۔ پارک ماحول کو صاف اور پرفضا رکھنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ماحول کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ایک عام آدمی کو بھی اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ہم یہ تو سوچتے ہیں کہ دوسرے ممالک کو طرح ہمیں ترقی کرنی ہے۔ ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ چائنہ جاکر اْن سے سوال کرینگے کہ آخر انہوں نے ترقی کیسے کی اور اس کا راز کیا ہے؟ مجھے اس بات پر ہنسی آتی ہے ہم جیسے الف ب کا قاعدہ پڑھنے والے طلبہ ہیں جنہیں اس بات کی فکر ہے کہ بڑی کلاسوں میں کیسے پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے سچ پوچھیں تو مجھے واقعی ایسا لگتا ہے کہ ہم ابھی پوری طرح الف ب کا قاعدہ بھی نہیں پڑھ سکے۔ ایک عام شخص کا بھی وژن ہوتا ہے اْسکی عقل سمجھ بوجھ ہوتی ہے اور آج کے دور میں مشاہدہ عقل رکھنے والوں کیلئے کافی ہے۔یورپ اور دوسرے ممالک کا تذکرہ کرتے وقت انکے نظام کو بھی غور سے دیکھیں اْنکی ترقی کا راز آپ کو ضرور سمجھ میں آجائیگا۔
٭…٭…٭