مسلمانوں کی تعمیراتی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کشادگی، آرائش، نقش کاری اور پچی کاری میں مہارت مسلمانوں کا طرۂ امتیاز تھی ہندو معاشرہ اس طرز تعمیر سے نابلد تھا اور ان کی تعمیرات تنگ و تاریک اور ہوا کی گزرگاہ کا مناسب انتظام نہ ہونا تھا اس بات کا ذکر ایک ہندو مورخ ایشوری پرشاد نے بھی کیا ہے تاریخ کے استاد کی حیثیت سے راقمہ کا نور محل بہاولپور کا دورہ در حقیقت مسلمانوں کی تعمیراتی روایات کا مطالعہ کرنا تھا نور محل نواب صادق چہارم نے 1870ء میں تعمیر کروایا وکٹوریہ ہسپتال لائبریری اور ایجرٹن کالج کی عمارات کا جائزہ لیتے ہوئے جب انسان نور محل کی طرف بڑھتا ہے تو اسکی پرشکوہ عمارت کے طلسم میں گرفتار ہوجاتا ہے وسیع سبزہ زار میں کھری عمارت جادوئی کشش رکھتی ہے اس کی تعمیر میں اسلامی خدوخال کے ساتھ ساتھ اٹالین طرز کا امتزاج بھی ہے اسکی وضع قطع آب وتاب اور طمطراق در حقیقت اس دور کے نوابوں کی شاہانہ طرز زندگی کا غماز ہے ان نوابوں کے پاس بہت دولت تھی جو انہوں نے محلات کی تعمیر میں صرف کی بیسیویں صدی کے آغاز میں تعمیر ہونے والی یہ عمارت جداگانہ انداز پر تعمیر ہوئی ایک روایت ہے کہ یہ محل نواب نے اپنی ملکہ کے نام پر بنایا یہی وجہ ہے کہ یہ ملکہ کے نام سے مشہور ہے اس محل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شاہی خاندان یہاں ایک رات سے زیادہ نہ رہا اسکی وجہ یہ تھی کہ اس محل کے قرب میں ایک قبرستان تھا اور اوپر والی منزل سے دیکھا جاسکتا تھا ملکہ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ محل کے قرب میں قبرستان ہو تاہم نواب پنجم قمرالنساء عباسی نے اسکی تردید کی لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ اس محل میں کوئی نہ ٹھہر سکا اور محل کو مہمان خانہ بنادیا گیا نواب پنجم کیمطابق یہاں بڑی بڑی شخصیات آکر ٹھہریں جن میں فاطمہ جناح شاہ برطانیہ کے علاوہ گورنر پنجاب اور ایوب خاں بھی آکر ٹھہرے اس محل کی تعمیر میں روشنی اور ہوا کا خاص انتظام کیا گیا سیڑھیاں اتر کر تہہ خانہ بنایا گیا جو اس دور کی جیل تھی اس تہہ خانے میں بڑے بڑے ہوادار کمرے بنائے گئے جہاں گرمی کا شائبہ تک نہ تھا کہا جاتا ہے اس محل کی تعمیر میں اٹلی، جرمنی اور فرانس سے انجینئر منگوائے گئے محل کی تعمیر اس طرح کی گئی کہ اس میں سورج کی روشنی داخل ہونے کیلئے راستے رکھے گئے محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھنے کے دربار کے عین اوپر شیشے کی دیوار ہے جہاں شیشوں کو اس قدر مہارت سے لگایا گیا کہ ہر کونے میں روشنی رہتی ہے اس محل میں قیمتی فرنیچر اٹلی سے منگوایا گیا شہر سے ذرا دور یہ خوبصورت عمارت لوگوں کو دعوت نظارہ دیتی ہے کہ ہے کوئی آنکھ جو اس پرشکوہ عمارت کو دیکھے درحقیقت اس عمارت کی خوبصورتی کشادگی اور بہترین انداز تعمیر ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کی تعمیر کا حصہ رہا اور سیاحوں کیلئے دلچسپی کا مرکز ہے ۔