جسٹس ارشا د حسن خان کی کتاب ’’ارشاد نامہ‘‘

محترم سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے اپنی سوانح عمری ’’ارشاد نامہ‘‘ ارسال کی جس کے مطالعے سے ان کی کامیاب زندگی‘ انکے کردار‘ ثابت قدمی ‘ محنت‘ لگن‘ دیانتداری اور اپنے پیشے سے مخلصی کے پوشیدہ باب کھل کر سامنے آتے ہیں۔ ارشاد حسن خان کم عمری میں ہی والد اور والدہ کے سائے سے محروم ہوگئے اور قیام پاکستان کے بعد انکی تعلیم پاکستان میں اپنے رشتہ داروں کے مرہون منت رہی اور انکے عظیم قریبی عزیزوں نے انکی مکمل سرپرستی کرکے انکی تعلیم‘ رہائش اور کیریئر کیلئے اپنا بھرپور تعاون کیا اور کسی مرحلے پر ان عزیز و اقارب نے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ انکے والدین اس دنیا میں نہیں۔ ارشاد حسن خان نے اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور نوجوانوں کیلئے انکی سوانح عمری پڑھ کر زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنے کا جذبہ ابھرے گا۔ انکی زندگی کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے جو یہ سکھاتی ہے کہ آپ اپنے پیشے سے پیار کرینگے اور پوری دلجمعی کے ساتھ اپنا کام کرینگے تو اﷲ پاک آپ کیلئے کامیابی کی راہیں کھول دیگا اور ثابت قدمی سے آپ ترقی کی منازل باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔
ارشاد حسن خان نے اپنا کیریئر بظاہر ایک عام نجی ادارے میں رسیپشنسٹ سے شروع کیا لیکن وہاں بھی اپنی محنت اور لگن سے نام کمایا اور اپنے ادارے کے مالکان کی فیملی کا حصہ بن گئے ۔ جب اس قدر لگن ہوگی تو اﷲ کامیابی ضرور دیگا۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی قانون کی تعلیم جاری رکھی اور پھر اﷲ کے کرم سے انہوں نے وکالت میں نام کمایا۔جب وہ ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے تو اس وقت حکومت کے معاملات کا عدالت عظمیٰ میں دفاع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن انہوں نے حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے معزز ججوں کا سامنا کیا اور بھرپور محنت و لگن سے اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے ثابت کیا کہ انکی تقرری میرٹ پر تھی۔ ارشا د حسن خان کو پاکستان کی تاریخ میں نام کمانے والے بڑے قانون دانوں کیساتھ کام کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا جن میں جسٹس ایم آر کیانی‘ منظور قادر صاحب‘ یحیٰی بختیار صاحب‘ جسٹس نسیم حسن شاہ‘ کے ایم صمدانی صاحب‘ جناب کے اے برو ہی صاحب‘ جناب شریف الدین پیرزادہ صاحب سے تو انکی بے تکلفی تھی۔
انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں جنرل ضیاء الحق‘ محمد خان جونیجو‘ بے نظیر بھٹو‘ میاں نوازشریف اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں کام کیا اور لاہور ہائی کورٹ کے جج‘ سیکریٹری قانون‘ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ‘ سپریم کورٹ کے جج اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر کام کرکے ریٹائر ہوئے ۔ وہ پاکستان کے عبوری صدر مملکت بھی بنے۔ پھر چیف الیکشن کمشنر تعیناتی کردی گئی۔ جنرل ضیاء الحق سے تو ارشاد حسن خان کی بے تکلفی اور مذاق تھا اور اس کا ذکر انہوں نے اپنی سوانح عمری میں بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ انہوں نے شریف الدین پیرزادہ صاحب کی قانونی مہارت اور جنرل ضیاء الحق شہید کی جانب سے انہیں ’’استاد‘‘ کہہ کر مخاطب کئے جانے کا تذکرہ کیا اور شریف الدین پیرزادہ کی جانب سے حکومتوں کو قانونی مشاورت دیئے جانے اور اسکے نتائج کے متعلق بھی ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شریف الدین پیرزادہ نے کبھی بھی اپنے مخالفین کے ردعمل کو اہمیت نہیں دی۔
ارشاد حسن خان کی کاوشوں سے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی قائم کی گئی جو آج ایک نہایت فعال ادارے کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاقی شریعت عدالت کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کیلئے تجاویز دیں اور فیڈرل شریعت کورٹ کو زیادہ فعال بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
انکی سوانح عمر ی میں سب سے اہم وضاحت جو کی گئی ہے وہ 1999ء میں فوجی قبضے کے بعد بطور چیف جسٹس حلف اٹھانے اور اس عمل سے جمہوریت‘ عام شہری کو انصاف کی فراہمی اور فوجی عدالتوں کے قیام کو روکنے کے متعلق انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر ہم حلف نہ اٹھاتے اور استعفیٰ دیکر سب جج صاحبان گھر چلے جاتے تو یقینی طور پر افراتفری اور انتشار پھیلتا اور پاکستان کے کسی بھی شہری کیلئے انصاف تک رسائی ناممکن ہوتی۔ فوجی قبضہ ایک زمینی حقیقت تھی اور اسے قبول کرکے سپریم کورٹ کے ادارے کو بچانا‘ جمہوریت اور جمہوری اداروں کو جلد از جلد بحال کرنا اورسپریم کورٹ جیسے اہم ترین ادارے کو بچانا ضروری تھا ۔ اس موقع پر ان کے پاس 3آپشنزتھے۔پہلا آپشن : یہ کہ استعفٰی دے کر سب جج صاحبان گھر چلے جائیں۔ جس سے یقینی طور پر افراتفری اور انتشار پھیلتا اور پاکستان کے کسی بھی شہری کیلئے انصاف تک رسائی ناممکن ہوتی۔
دوسرا آپشن: کہ PCO NO 1 of 1999  کے تحت تمام پٹیشنز سنے بغیر خارج کردیتے اس بنا پر کہ سپریم کورٹ کو فوجی حکومت کیخلاف درخواست سننے کا اختیار نہیں۔ تیسرا آپشن: فوجی قبضے کے تحت جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی اسے حقیقت کے طور پر قبول کرنا اور سپریم کورٹ کے ادارے کو بچانا۔ جمہوریت اور جمہوری اداروں کو جلد از جلد بحال کرنااور بہت غور و خوض کے بعد ظفرعلی شاہ کیس میں 12ججز نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ حلف اٹھانا سپریم کورٹ جیسے اہم ترین ادارے کو بچانے کیلئے ضروری تھا۔ عدالت نے ہوش مندی اور غور و فکر کے بعد پاکستان کی قومی آزادی و سلامتی و استحکام اور مجموعی طور پر ملک کے مفاد کو تحفظ دینے کی کوشش اور عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے حمایت کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اسکے نتیجے میں ریاست کے تانے بانے اور انسانی حقوق/بنیادی حقوق کی ضمانت ملی۔ یہ وجوہات تھیں جن کی بناء پر میں نے PCO کے تحت حلف لیا اور اﷲ نے مجھے چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب عطا کیا۔ارشاد حسن خان کا اس وقت کی مناسبت سے جمہوریت کی جلد بحالی‘ شخصی آزادی اور سپریم کورٹ کے ادارے کو بچانے کیلئے اٹھایا جانیوالا اقدام بہترین تھا جس سے فوجی حکومت کو مقررہ مدت میں الیکشن کراکے جمہوریت بحال کرنی پڑی۔
ارشاد حسن خان نے بطور جسٹس اور چیف جسٹس اہم ترین کیسز کے فیصلے دیئے اور ان کے فیصلوں کو اہم ترین کیسز میں بطور شہادت پیش کیا جاتا ہے جس میں سب سے اہم ظفر علی شاہ کیس ہے۔ اس کیس نے جمہوریت کی مختصر مدت میں بحالی کو یقینی بنایا اور عدلیہ کے وجود کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ای پیپر دی نیشن