ایوان بالا میں یوسف رضا گیلانی ،بلاول کو پریذائڈنگ   آفیسر مقرر نہیں کر سکتے تھے۔شبلی فراز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپا،یوسف رضا گیلانی اور بلاول بھٹو زرادری کو پریذائڈنگ   آفیسر مقرر نہیں کر سکتے،ایوان بالا کے سینئر ترین رکن کو انتخابی آفیسر مقرر کیا گیا،تحریک عدم اعتماداپوزیشن کا آئینی حق ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے  ہفتہ کو پی آئی ڈی کے میڈیا سینٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔جو علاقے ماضی میں نظرانداز ہوئے ان کیلئے عملی طور پر اقدامات کر رہے ہیں۔سابقہ فاٹا کے علاقوں کیلئے بھی وزیراعظم نے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ہے۔تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سابقہ فاٹا سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوا۔انھوں نے کہا کہ حکومت اداروں کو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ایوان میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے قانون سازی ہونی چاہیے۔وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ فاٹا کا انضمام آسان کام نہیں تھا۔وزیراعظم نے سابقہ فاٹا کیلئے 100ارب سالانہ کا بجٹ دیا۔وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ اپوزیشن کا ملکی سیاست کا مقصد ذاتی مفادات کا تحفظ ہے۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بیرون ملک اربوں روپے کی جائیدادیں بنائیں۔ادارے کسی بھی ریاست کا ستون ہوتے ہیں۔اپوزیشن نے اداروں کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔تحریک انصاف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔تحریک انصاف عوام کی فلاح و بہبود اور اصولوں کی سیاست پر گامزن ہے۔پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے یہی حشر مسلم لیگ(ن) کا ہوا ہے ۔ شبلی فرازمعاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔سیاسی استحکام نہ ہونے سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کورونا وائرس کی وبا سے عالمی معیشت متاثر ہوئی۔ حکومت نے کورونا وبا کے دوران مثبت اقدامات کیے۔وزیراعظم نے ہمیشہ الیکشن میں اوپن ووٹنگ کی بات کی۔چارٹر آف ڈیمو کریسی میں اپوزیشن نے اوپن ووٹنگ کی بات کی،ہم  ہمیشہ سے انتخابی اصلاحات کی حامی رہے ہیں۔اپوزیشن کا اتحاد غیر فطری ہے، یہ ایک دوسرے کے خیر خواہ نہیں،اپوزیشن لانگ مارچ یا شارٹ مارچ کرے، ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔عوام اپوزیشن کے بیانیے کو مسترد کر چکی ہے۔وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ ایوان بالا میں آئینی و جمہوری عمل مکمل ہوا ہے ,اپوزیشن جماعتوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔مسلم لیگ(ن)،پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نے ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھراگھونپا۔سینیٹ میں اس کارروائی کے نتیجہ میں ثابت ہو گیا ہے کہ پی ڈی ایم مصنوعی اتحاد تھا جو کہ قصہ پارینہ بن چکا ہے جس کی تدفین ہو چکی ہے۔پی ڈی ایم ضرور لانگ مارچ کرے،ضرور اسلام آباد آئے لیکن انہیں ایک گملا توڑنے  کی اجازت نہیں دی جائے گی۔شوق سے آئیں ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ انہیں کتنی عوامی پذیرائی حاصل ہے۔چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے حوالے سے ہم نے آئینی و قانونی ذریعہ استعمال کیا اور سینٹ انتخابات کے موقع پر اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی میں جو کھیل کھیلا گیا ۔سینٹ میں ہم نے اس کا ردعمل نہیں دکھایا۔ماضی میں میں نے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا انتخاب لڑا تھا, اس وقت ہمارے چھ  اراکین سینٹ تھے ہم نے کسی دوسری جماعت سے ووٹ بھی نہیں مانگے تھے ,میرے مد مقابل مولانا عبدالغفور حیدری تھے مگر مجھے 19 ووٹ مل گئے۔مولانا عبدالغفور حیدری کو اندازہ ہونا چاہیے کہ دیگر اپوزیشن جماعتیں بالخصوص پیپلزپارٹی والے  انہیں ووٹ نہیں دینا چاہتے۔اب وقت ہے کہ ہم آئینی و قانونی اصلاحات میں پیشرفت کریں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیئرمین،ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہاؤس بزنس ہے۔یہ ہاؤس کا اپنا انتخاب ہے جس سے کسی دوسرے ادارے کا کوئی تعلق نہیں  اور نہ ہاؤس بزنس کو باہر لے جایا سکتا ہے تاہم اپوزیشن جماعتیں جس فورم پر جانا چاہتی ہیں ضرور جائیں ہم ان کا راستہ نہیں روکیں گے۔چیئرمین سینٹ سے متعلق تحریک عدم اعتماد کے بارے میں ایک سوال کے جواب  میں سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ یہ ان کا آئینی حق ہے ۔آئینی و جمہوری عمل ہوتا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے بتایا کہ صدر  پاکستان نے ایوان بالا کے سینئر ترین رکن سید مظفر حسین شاہ کو پریزائیڈنگ آفیسر مقرر کیا,اپوزیشن میں سینیٹر میاں رضاربانی سمیت  دیگر بہت سے آئینی وقانونی ماہرین موجود ہیں اپوزیشن کو ان سے بھی رائے لینی چاہیے۔یہ ہاؤس کی کارروائی کا  معاملہ ہے سید یوسف رضا گیلانی یا بلاول بھٹو زرداری کو پریزائیڈنگ آفیسر نہیں  کر سکتے  تھے ۔انہوں نے کہا کہ کیمروں کی برآمدگی کی ضرور تحقیقات ہونی چاہیں۔حکومت تحقیقات سے خائف نہیں ہے اور مشترکہ کمیٹی بننی چاہیے۔ذرائع ابلاغ سے وابستہ کارکنان کو انسداد کورونا ویکسین لگانے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ اس محاذ پر صف اول میں خدمات سرانجام دینے والوں کو ترجیح دی گئی ۔دوسرے مرحلے میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے فیصلہ کیا گیا۔ذرائع ابلاغ کے کارکنان کو ضرور ویکسین لگنی چاہیے, یہ نہیں کہا جا سکتا  کہ میں نے یہ بات نہیں کی تاہم یہ بات بھی ریکارڈ پر رہے کہ مجھے یا وزیراعظم کو کورونا نہیں ہوا ,بہرحال ویکسین کی ہر ایک کو ضرورت ہو سکتی ہے ,ایک بار پھر میڈیا سے وابستہ افراد کو انسداد کورونا ویکسین لگانی کی بات کروں گا, ضروری ہے کہ صحافتی تنظیموں کو اس بارے میں باضابطہ طور پر حکومت سے بات کرنی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن