کامن سینس بنیادی عملی معلومات کا وہ ذریعہ ھے جو ایک صاف ستھری اور محفوظ زندگی گزارنے کا سلیقہ دیتا ھے۔ عام عقل وہی ہوتی ھے جو مضبوط شواہد پر مبنی کسی بھی صورتحال میں ایک بہتر فیصلہ کرے- کبھی خیال آتا ھے، کتاب مقدس میں ایسی اور اس سے ملتی جلتی آیات کیوں نہ اتریں؟ " ہم تمہیں 20 ویں صدی عیسوی میں ڈی این اے کی دریافت کی خبر دیتے ہیں " یا یوں کہ طاقتور ٹیلی سکوپ کے ذریعے خلا کی وسعتیں ماپنے، اس میں تیرتے سیارگان کا لگا بندھا منظم و مربوط نظام مشاہدہ کرنے کی اہلیت، آبدوزوں میں بیٹھ کر سمندر کے باطن میں اتر کر باریک ترین آبی حیات کے حیرت زا مشاھدے تمھیں ہمارے ہونے کی خبر دیں گے- تب تم میں سے صاحبان شعور پکار اٹھیں گے کہ بیشک اللہ وحدہ لا شریک ہی زندگی، اس کے تمام تر لوازمات و موجودات کا خالق ھے- وہی لائق پرستش ھے جب یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو تو ہم پر ایمان لانے میں تاخیر نہ کرنا۔ماضی حال اور مستقبل کو ایک اکائی کے بطور دیکھنے والا خالق، سورج، ایسے عظیم الجثہ وجود کو چراغ کہنے والا مالک الملک، علیم بذات الصدور ایسا حیرت انگیز دعوی رکھنے والا علام الغیوب کیا کچھ ایکسپوز نہ کر ڈالتا جسے سن کر، دیکھ اور پرکھ چکنے کے بعد اب دنیا میں ہر شخص کلمہ گو ہوتا؟ صاحبان ایمان ایسی شہادتیں اٹھائے بات بات پر پریس کانفرنسیں منعقد کیا کرتے- " لو جی سٹیو جابز کے ہاتھوں آئی فون کی ایجاد پر غلغلہ مچانے والے جان لیں کہ قرآن مجید میں یہ بات چودہ سو برس قبل سورہ نجم میں لکھ دی گئی تھی ۔بس اب سیدھی طرح ایمان لاوّ تمھارے پاس کوئی راہ فرار نہی " لیکن اس نے ایسا نہی کیا کیونکہ تب ایمان جبر ہوجاتا- عقل ایسا شاندار ( search engine ) سافٹ ویئر عطا کرنے والے نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ چاہو تو مجھے مانوں ، چاہو تو میرا انکار کرو- ہاں البتہ آس پاس میں بکھری کتاب کائنات میں میری نشانیاں ہیں، انفس و آفاق میں ہم تمہیں اپنے موجود ہونے کے ان گنت ثبوت دکھائیں گے، انسانی شکل میں اپنے خاص نمائندے یعنی پیغمبر بھی بھیجیں گے۔ان تمام clues کی مدد سے اگر تم پہیلی بوجھ لو، تو تمہیں کروڑ ہا سال کی نہ ختم ہونے والی حیات بمعہ رنگا رنگ لوازمات، راحت و آرام بطور انعام عطائ کریں گے۔ خالق عقل نے عاقل انسان کو زندگی کی پہیلی بوجھنے کے اشارے دیئے- یہ اشارے علم و فہم، سوال در سوال کی یلغار کرسکنے کی قوت عاقلہ ایسے آلات کو عمدگی سے برتنے کی صورت سمجھے جا سکتے ہیں اور بالآخر یہ اشارات بات سمجھ میں آجانے کی صورت سر تسلیم خم کردینے کے متقاضی ہیں۔ انہی اشاروں کو خدائی سرگوشیوں کے نام سے تعبیر کیا ھے اور ایسی متعدد زیادہ تر معنی خیز سرگوشیاں ایک مقام پر اکٹھی کردیں- الرٹ کردینے والی یہ سرگوشیاں سن کر بندہ سوچتا ھے کہ چوٹ کھا کر بھی، ارادوں کے ٹوٹنے سے بھی پورے کا پورا قافلہ لٹا کر بھی خدا پر ایمان کی چنگاری نہ بھڑکے، بندہ باغی مان کر نہ دے کہ " جو اختیار بشر پر پہرے بٹھا رھا ھے وہی خدا ھے" کوئی ایسی ڈیوائس ایجاد نہی ہوئی جو حضرت انسان پر ایقان و ایمان کا شرارہ یا سپارک پھینک سکے- بس یہ گلزار ہست و بود ہی، افق در افق پھیلی بس یہ کتاب زندگی ہی اس کا پیغام ھے، اس کے ہونے کے منہ زور اشارے لئے - خارج میں بھی اور خود ہمارے اپنے دروں میں بھی لبالب بھری پڑی ھیں اسکی نشانیاں جو کسی خالق و مصور کے موجود ہونے کاپتہ دیتی ہیں۔ دماغ پاشی کرنے کو عقل کا یہ سافٹ ویئر عنائت فرما کر جو خود نگاہ سے اوجھل ہوگیا تھا یہ اشتیاق و تجسس لئے ، کہ بھلا میرا شاہکار مجھے پانے کی جستجو فرمائے گا، یا اس ڈیوائس کی ساری طاقت بس مجھے ناموجود ثابت کرنے میں کھپا ڈالے گا ایمان کتنی بڑی کیسی حیرت انگیز دولت ھے- ملی تو ایک عامی کو مل گئی ، نہ ملی تو شرقاّ غرباّ اپنے فلسفے پھیلا دینے والوں، اپنی دانش گاہیں رینکنگ کے آسمان پر پہنچادینے والوں کو بھی نصیب نہ ہوئی- مولانا رومی نے کیا خوب کہا تھا " کائنات میں کچھ الفاظ بے آواز بھی ہیں- سنو"موجودہ سائنسی دور میں جدید علوم کے پھیلاوّ کی وجہ سے نوجوانوں میں عقائد کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں اور تعلیم یافتہ نوجوان مذہب کا فہم نامکمل ہونے کی وجہ سے سیکولرازم اور آزاد خیالی کی طرف متوجہ ہورھے ہیں - موجودہ دور کے نوجوان جو کہ جدید نظریات حیات سے متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ صرف آزاد خیالی کی مصنوعی روشنی کی چکا چوند سے متاثر ہیں جبکہ درحقیقت وہ ان جدید غیر عقلی و غیر منطقی نظریات کا دفاع کرنے میں بہت کمزور ہیں اور نظریہ حیات کے حوالے سے سائنسی بنیادوں پر اٹھائے ہوئے سوالات کا جواب نیی دے سکتے۔ مغربیت کی اندھی تقلید نیاخلاقی بنیادیں ہلا دی ہیں ۔ مادہ پرستی کا عفریت خاندانی نظام اور خونی رشتوں کو تہہ و بالا کئے دے رھا ھے۔