پاکستان کے سخت نوٹس لینے پر بھارت کی اپنی 9مارچ والی حرکت پر رسمی معذرت


بھارت نے پاکستان میں میزائل داغنے کو فوج کی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے‘ اس سلسلہ میں بھارتی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک تکنیکی خرابی کے باعث بدھ کو میزائل حادثاتی طور پر فائر ہوا جو پاکستان کے علاقے میں جاگرا۔ بھارتی وزارت دفاع نے اس واقعہ کو انتہائی افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ اس واقعہ میں کوئی جانی نقصان نہ ہونا باعث اطمینان ہے۔ بھارتی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ سطح کی انکوائری کا حکم بھی دے دیا ہے۔ 
دوسری جانب پاکستان نے سپرسانک فلائنگ آبجیکٹ کے ذریعے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر بھارت سے سخت احتجاج کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور بھارت کی جانب سے فضائی حدود کی بلااشتعال خلاف ورزی پرسخت احتجاج کیا گیا۔ بیان میں تصدیق کی گئی کہ 9 مارچ کو پاکستان کے وقت کے مطابق شام ساڑھے چھ بجے بھارت کے علاقے سورت گڑھ سے بھارتی سپرسانک فلائنگ آبجیکٹ پاکستان میں داخل ہوئی اور چھ بجکر پچاس منٹ پر میاں چنوں کے قریب زمین پر گر گئی جس سے شہری املاک کو نقصان پہنچا اور انسانی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہوا۔ بیان کے مطابق اس آبجیکٹ کی پرواز کے راستے میں پاکستانی فضائی حدود میں اڑانے والی کئی ملکی اور بین الاقوامی پروازوں کو خطرے میں ڈالا گیا جس کے نتیجہ میں ہوابازی کے سنگین حادثے کے ساتھ ساتھ شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہو سکتی تھیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اس طرح کے غیرذمہ دارانہ واقعات بھارت کی جانب سے فضائی حفاظت کو نظرانداز کرنے اور علاقائی امن و استحکام کے حوالے سے بے حسی کے بھی عکاس ہیں۔ ہم اس واقعہ کی مکمل اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں جس کے نتائج سے پاکستان کو بھی آگاہ کیا جائے۔ 
اسی طرح وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی متذکرہ معاملہ کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ ہندوستان کی حرکت تشویش ناک ہے۔ بین الاقوامی برادری کو اس حرکت کا نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے باور کرایا کہ بھارت کی جانب سے یہ دوسری بار ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ہم اس حرکت کو بھارت کی تکنیکی ناکامی کہیں یا جارحیت اور بدنیتی سمجھیں؟ بھارت نے اس حرکت سے معصوم انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالا، ایوی ایشن اتھارٹیز کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پی فائیو ممالک کے نمائندگان کو وزارت خارجہ میں مدعو کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کرینگے، ہندوستان کو اس حرکت کیلئے جوابدہ ہونا پڑیگا۔ ہم ہندوستان کی وضاحت کے بعد اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کرینگے۔ ہم نے کل بھی اپنا دفاع کیا تھا اور آئندہ بھی کرینگے۔ اسی طرح مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے بھی باور کرایا کہ بھارت میں اکثر یورینیم کی خریدوفروخت کے واقعات ہوتے ہیں۔ بھارت کے ایسے غیرذمہ دارانہ اقدامات خطے سمیت دنیا بھر کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ 
یہ امر واقع ہے کہ دیرینہ مکار دشمن ہونے کے ناطے بھارت ہماری سلامتی کیخلاف اپنی گھنائونی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمہ وقت موقع کی تاک میں رہتا ہے۔ اس کیلئے وہ خود بھی پلوامہ جیسی دہشت گردی کی واردات کرکے اس کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا اور جارحیت کا جواز نکالتا ہے۔ اسے اکھنڈ بھارت والے اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے باعث ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کبھی قبول نہیں ہوا چنانچہ قیام پاکستان سے اب تک 75 سال کے دوران وہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بیسیوں وارداتیں کر چکا ہے جن میں پاکستان پر مسلط کی گئی تین جنگیں اور پاکستان کو دولخت کرنا بھی شامل ہے جس کے بعد اس نے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی ختم کرنے کی بدنیتی کے تحت خود کو ایٹمی قوت بنایا اور پاکستان کیخلاف آبی دہشت گردی میں بھی اضافہ کیا۔ امریکی نائن الیون کے بعد اسے امریکہ کی قربت حاصل کرنے کا موقع ملا تو امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بھی اس نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال کیا جس کے ساتھ اس نے ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کے حصول سمیت جنگی دفاعی معاہدے بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے ہی کئے ہیں۔ اسکی جنگی جنونیت اور توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کی ہرگز ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی کیونکہ بندر کے ہاتھ استرا آنے کے مصداق بھارت کے ہاتھ آئی ایٹمی ٹیکنالوجی اسکے اپنے سمیت پورے خطے اور پوری دنیا کے امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ اب تک ایٹمی افزودگی کے غیرمحفوظ ہونے کے باعث بھارت کے ہاتھوں کئی مواقع پر ایٹمی تابکاری کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ ایٹمی افزدوگی اتنی غیرمحفوظ ہے کہ اسے بھارت میں سرعام فروخت کرنے کے بھی کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں اس لئے متعلقہ عالمی اداروں اور اقوام عالم کی قیادتوں نے بھارت کے ان معاملات کا نوٹس نہ لیا اور اسکے ہاتھ نہ روکے تو علاقائی اور عالمی تباہی بعیداز قیاس نہیں۔ 
اگرچہ بھارت کی جانب سے 9 مارچ کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے مگر اسکی وزارت دفاع کا اس معاملہ میں جاری کردہ بیان بھی عذرِگناہ بدتر ازگناہ کے مصداق نظر آتا ہے کیونکہ یہ بیان وقوعہ کے دو روز بعد جاری کیا گیا جب پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے اس واقعہ کا نوٹس لے کر دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاچکی تھی۔ یہ تحقیق طلب معاملہ ہے کہ ’’غلطی‘‘ سے فائر ہونیوالے بھارتی سپرسانک میزائل کا پاکستان کی جانب کیسے رخ ہو گیا جس نے پاکستان کی فضائی حدود میں تقریباً تین سو کلو میٹر تک اڑان بھری۔ یہ بھارتی حرکت بادی النظر میں پاکستان میں جاری سیاسی خلفشار کے تناظر میں پاکستان کے دفاعی نظام کی مضبوطی و فعالیت کا جائزہ لینے کی نظر آتی ہے۔ بھارتی سپرسانک میزائل کے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے واقعہ سے تین روز قبل بھارتی آبدوز کا پاکستان کی بحری حدود میں داخل ہونا پاکستان کے دفاعی نظام کو چیک کرنے کی سازش ہی نظر آتا ہے جس سے عساکر پاکستان غافل ہرگز نہیں۔ پاک بحریہ نے بھارتی آبدوز کا بھی فوری تعاقب کیا اور اسے واپس بھاگنے پر مجبور کیا اور بھارتی سپرسانک میزائل کے پاکستان کی جانب داغے جانے کا بھی افواج پاکستان نے فوری نوٹس لیا جس پر بھارتی وزارت دفاع کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا پڑا۔ تاہم محض اسکی معذرت ہمارے اطمینان کیلئے کافی نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی والی اسکی یہ پہلی حرکت تو نہیں ہے۔ گزشتہ تین سال کے عرصہ میں بھارت ایک درجن سے زائد اپنے جاسوس ڈرون پاکستان میں داخل کر چکا ہے جنہیں پاک فضائیہ نے موقع پر ہی دبوچا اور انہیں مار گرایا جبکہ اسکی 27, 26 فروری 2019ء والی حرکت تو پاکستان پر عملاً جارحیت مسلط کرنے کی سازش تھی جو پاک فضائیہ کے مشاق دستوں نے اپنی پیشہ ورانہ  مہارت سے ناکام بنائی۔ 
اس تناظر میں ہمیں آج اپنے دفاع و سلامتی کیلئے پہلے سے بھی زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے یقیناً پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر نگاہیں جمائی ہوئی ہیں تاکہ وہ ہمارے کسی بھی کمزور پہلو کو بھانپ کر ہماری سلامتی پر اوچھا وار کرسکے۔ اس تناظر میں بھارت کی 9 مارچ والی حرکت باہم دست و گریباں ہمارے قومی سیاسی قائدین کیلئے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے۔ انہیں اپنے ذاتی سیاسی مفادات پر بہرصورت ملک کی سلامتی کو فوقیت دینی ہے۔ ملک محفوظ و سلامت ہوگا تو مفاداتی سیاسی کھیل تماشوں کا موقع بھی ملتا رہے گا۔ خدانخواستہ ملک ہی نہ رہا تو وہ کس سرزمین پر اپنی اپنی انائوں کے مظاہرے کرینگے۔ خدا اس وطنِ عزیز کو سلامت اور اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...